جس وقت یورپ میں عورت کے لیے انجیل کو ہاتھ بھی لگانا حرام سمجھا جاتا تھا، اس وقت عالم اسلام میں قرطبہ شہر کے صرف ایک محلے میں 170 خواتین قرآن کی کتابت کرتی تھیں۔
استاد محمد اکرم ندوی نے اپنی کتاب "المحدثات من النساء" (حدیث کے خواتین علماء) میں ایسی 8 ہزار مسلمان خواتین کا ذکر کیا ہے جو حدیث نبوی شریف کے بڑے علماء تھیں، یہ کتاب 40 جلدوں میں ہے۔
حافظ ذہبی نے اپنی کتاب "میزان الاعتدال" میں 4000 خواتین علماء کا ذکر کیا ہے۔
علامہ حافظ ابن عساکر نے لکھا ہے کہ ان کے شیوخ میں سے 80 سے زیادہ خواتین تھیں جن سے انہوں نےعلم حاصل کیا۔
امام سخاوی نے اپنی کتاب " الضوء اللامع لاھل القرن التاسع" میں ایسی 1000 سے زیادہ خواتین کا ذکر کیا ہے جو علم کے پہاڑ تھیں اور اپنے زمانے میں امت کی قیادت کر رہی تھیں۔
یہ وہی صدی ہے جس میں یورپ میں 6 لاکھ خواتین کو چڑیل اور جادوگر قرار دے کر سزائے موت دی گئی۔
اب یہ درندے عورتوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں اور اسلام پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ عورتوں کو حقوق نہیں دیتا!!
اور طُرفہ تماشہ تو یہ ہے کہ بعض نام نہاد مسلمانوں کی بہو بیٹیاں بھی ''عورتوں کے حقوق'' کے لئے سرِ بازار نیلام ہوتی پھرتی ہہیں۔
ور اسے اپنے حقوق کی جنگ کہتی ہیں۔
عروہ جنید
0 Comments