Main Menu Bar

ہمارے پروفیسر صاحبان تو کتابوں کے ڈھیر لگاتے ہی رہتے ہیں کہ ان کے پاس وقت بھی وافر ہوتا ہے اور

 ہمارے پروفیسر صاحبان تو کتابوں کے ڈھیر لگاتے ہی رہتے ہیں کہ ان کے پاس وقت بھی وافر ہوتا ہے اور یہ کتابیں ترقی درجات کا سبب بھی بنتی ہیں. سول سروس میں بھی لکھنے پڑھنے والے تو بہت ہیں لیکن اس مصروف زندگی میں ادب کو اوڑھنا بچھونا بنائے رکھنے والے بہت کم، لیکن ہوتے ضرور ہیں. ان فنا فی الادب لوگوں میں ایک تو ہمارے انیس ناگی ہوئے اور دوسرے سرحد پار شمس الرحمٰن فاروقی. اکثر قارئین کو تو شاید معلوم ہی نہ ہو کہ وہ ایک بیورو کریٹ تھے. وہ شعر بھی لکھتے رہے، فکشن بھی اور تنقید بھی. یہی نہیں کوئی چالیس سال ادبی رسالہ "شب خون" بھی باقاعدگی سے نکالا.

25 دسمبر 2020 کو 85 برس کی عمر میں رخصت ہوئے تو ان کی 40 کتابیں چھپ چکی تھیں ( 2 ناول، ایک افسانوں کا مجموعہ، 5 شاعری کے مجموعے، دو درجن تنقید اور لسانیات کی کتابیں اور 8 انگریزی میں ترجمہ کی ہوئی کتابیں)
ان کے ناول، "کئی چاند تھے سرِ آسماں" کی تو پوری اردو دنیا میں دھوم مچ گئی.
خوشی کی بات یہ ہے کہ شمس الرحمٰن فاروقی کی ادبی حیثیت اور خدمات کا اعتراف سرحد کے دونوں طرف کی حکومتوں نے کیا. بھارتی حکومت نے انہیں" پدم شری" کا اعزاز دیا تو پاکستانی حکومت نے "ستارہ امتیاز" کا. سرسوتی سمّان ایوارڈ بھی ملا جو برصغیر کا سب سے بڑا ادبی ایوارڈ سمجھا جاتا ہے. علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری دی۔
اب تازہ خبر یہ ہے کہ" کئی چاند تھے سر آسمان" کو چھوڑ کر ان کا تمام فکشن، ناول، افسانے، ڈرامے ایک جلد میں چھپ گئے ہیں.
محمد حمید شاہد کا مرتب کیا ہوا، 770 بڑے سائز کے صفحات کا یہ
" مجموعہ شمس الرحمٰن فاروقی" بک کارنر ، جہلم نے شائع کیا ہے. اس طرح کے خوب صورت فونٹ میں کمپوزنگ اور عمدہ پروڈکشن کم ہی دیکھنے میں آئی ہے.
مزید معلومات کیلئے
03144440882


Post a Comment

0 Comments