Main Menu Bar

#موبائل فون کی دنیا میں انقلاب لانے والا ہینڈ سیٹ نوکیا کمپنی کا پہلا کمرشل سطح پر بننے والا موبائل 1011 تھا۔ جسے 1992 میں لانچ کیا گیا، اس کی 1 کروڑکے قریب کاپیاں سیل ہوئیں۔

#موبائل فون کی دنیا میں انقلاب لانے والا ہینڈ سیٹ نوکیا کمپنی کا پہلا کمرشل سطح پر بننے والا موبائل 1011 تھا۔ جسے 1992 میں لانچ کیا گیا، اس کی 1 کروڑکے قریب کاپیاں سیل ہوئیں۔ 

نوکیا 1011 میں 99 نمبر محفوظ کرنے کی میموری تھی، وزن بھی کم کر کے 495 گرام کر دیا گیا۔ اس کی قیمت 1796 ڈالر رکھی گئی جو آج کے پاکستانی روپوں میں 3 لاکھ بارہ ہزار روپے ہیں۔ اس کا سٹینڈ بائی ٹائم 12 گھنٹے اور ٹاک ٹائم 4 گھنٹے تھا۔ 

دنیا کے پہلے موبائل کا بنیادی کام صرف کال کروانا تھا، اس میں کوئی دوسری آپشن نہ تھی۔ پھر ایس ایم ایس ایڈ ہوا، پھر انٹرنیٹ، پھر دنیا کی ہر چیز کو موبائل میں شفٹ کر دیا گیا۔ آج موبائل سے دنیا کا شاید ہی کوئی ایسا کام ہو جو نہ لیا جا رہا ہو۔ ایک ٹی وی یا AC سے لے کر ڈرون طیاروں کو موبائل فون ایپ سے کنٹرول کیا جا رہا ہے۔ آرٹی فیشل بیوٹی کیمرے اور آرٹیفیشل انٹیلی جینس موبائل کی ترقی میں سب سے جدید فنکشن ہیں۔ ساری دنیا کی دولت اور بینکنگ سسٹم کا 69 فی صد ڈیٹا موبائل ایپلیکیشنز میں شفٹ کیا جاچکا ہے، باقی بھی تیزی سے ہو رہا ہے۔

مگر یہ موبائل آج بھی اپنا بنیادی کام نہیں بھولا۔ آپ کوئی گیم کھیل رہے ہوں یا فلم دیکھ رہے ہوں، انٹرنیٹ سرفنگ کر رہے ہوں یا وڈیو بنا رہے ہوں الغرض ایک وقت میں 10 کام بھی کر رہے ہوں۔

 تو جیسے ہی کوئی کال آئے موبائل فوراً سے پہلے سب کچھ چھوڑ کر آپ کو بتاتا ہے کہ کال آرہی ہے یہ سن لیں۔ وہ اپنے سارے کام روک لیتا ہے۔

اور ایک انسان جسے اللہ نے اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا اور ساری کائنات کو اس کی خدمت کے لیے سجا دیا، وہ اللہ کی کال پر دن میں کتنی بار اپنے کام روک کر مسجد جاتا ہے؟

 مسجد جانا تو درکنار اب اللہ کی کال یعنی اذان پر ہم اپنی گفتگو بھی روکنا مناسب نہیں سمجھتے۔ عبادت ہر انسان اور نماز ہر مسلمان کی زندگی کا بنیادی جز ہے جس کی موت تک کسی صورت میں بھی معافی نہیں۔

 کاش ہم  موبائل سے اتنا سا ہی سبق سیکھ لیں جسے ہم نے خود ایجاد کیا اور ایک لمحہ بھی خود سے جدا نہیں کرتے کہ دنیا کے سب ہی کام کرو مگر اپنی پیدائش کا بنیادی مقصد اللہ کی عبادت کبھی نہ بھولو۔ اذان ہوتے ہی سب کچھ روک کر مسجد چلو اور اللہ کی کال پر لبیک کہو۔“


Post a Comment

0 Comments