Main Menu Bar

کمال اتاترک کا انجام اتاترک بعض لوگوں کاائیڈیل ہےائیے سنئےکہ اسکی موت کی روداد آخری دنوں میں

کمال اتاترک کا انجام
 اتاترک بعض لوگوں کاائیڈیل ہےائیے سنئےکہ اسکی موت کی روداد آخری دنوں میں
 اتاترک "پارک" ہوٹل میں تھا۔اتاترک اپنے بارے میں شدید خوف کا شکار تھا بڑے بڑے ڈاکٹروں کو اپنے ارد گرد جمع کیا ہوا تھا، اس کو جگر کی تکلیف تھی جسے ہر وقت پیاس بھی لگتی تھی پھر ڈاکٹر سیرنج کے ذریعےاس کے پیٹ سے پانی نکالتے تھے۔اورمنہ سےگنداتارھتاتھا۔وہ لواطت (جس سےیہ مشھور تھا)کی وجہ سےشدید موذی مرض میں بھی مبتلاتھا اس کے جسم کے کچھ حصے میں کیڑے ہو گئے تھے جو آلات کے بغیر صرف آنکھ سے نہیں دیکھے جا سکتے تھے، یہ کیڑے سرخ رنگ کے تھے۔ ان کیڑوں کی وجہ سے اس کو خارش اور کھجلی کی بھی سخت تکلیف تھی۔ حتی کہ عیادت کے لیے آنے والے سفراء اور غیر ملکی وفود کی موجودگی میں بھی کھجلی میں مشغول رہتا۔اتاتر ک تین سال تک اسی حالت میں ہلاک ہوا۔ مرنے کے بعد اس کی نماز جنازہ کے حوالے سے شدید اختلافات سامنے آئے. وزیر اعظم چاہتے تھے کہ ان کی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے، جبکہ آرمی چیف کی رائے تھی کہ نماز جنازہ پڑھی جائے. پھر ان کی نماز جنازہ اوقاف کے ڈائریکٹر شرف الدین آفندی نے پڑھائی جو خود اتاترک سے بدترسیکولر آدمی تھادین دشمنی کااندازہ لگاوکہ اتاترک نےترکی میں برطانیہ کے سفیر کو اپنا جانشین قرار دیا۔ اور اس کے حوالے سے وصیت بھی کی یعنی وہ مرنے کےبعد بھی اپنے آقا برطانیہ کو راضی کرنا چاہتا تھاتصویر اتارک کی حالت نزاع کے وقت لی گئی تھی جو تاریخ میں محفوظ ہے۔اوراسکی امی دوغہ قبیلہ کی یھودیہ تھی اور باپ مسلمان تھا۔اور یاد رہے کہ کافرمسلم سیاسی لیڈروں کوبیٹیاں دیتےہیں جس طرح عرب کیساتھ ہوا تاکہ۔۔۔۔۔
اس کمال اتاترک نے ائین میں اسلام کےنام پرپابندی لگائی اورسینکڑوں سال سے قائم ارطغرل اور عثمان کی قائم کردہ  خلافت عثمانیہ کو تاراج کیا یہودیوں سے ملکر فوجی بغاوت کی اور1924میں سیکولرحکومت ائی اورکافرلوگ کمال سے بڑےخوش ہوئے۔اورعجیب کہ ھم پاکستانی ادارے دوست دشمن کوجانتے نہیں کہ کسی نے ھمارے اسلامی ملک کےنصاب تعلیم میں  کمال اتارک پرمضمون ڈالاہے جس سےبچے گمراہ ھوتےہیں۔اوردوسری طرف المیہ یہ ہے کہ ھمارا نصاب اغاخانیوں کےپاس ہے اورسات سال پہلے عمران نے کےپی کے کےنصاب کواغاخانیوں سےلیکر برطانیہ کے حوالے کیا۔ اللہ پاک وطن پررحم فرمائےامین ثم امین
والسلام
محمداسماعیل طورو












Post a Comment

0 Comments