Main Menu Bar

حج کے چند اہم اسباق الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ،أما بعد: حج کی عبادت انواع واقسام کے اسباق ودروس پر مشتمل ہے۔ پیش نظر مقالہ میں ہم

حج کے چند  اہم اسباق
الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ،أما بعد:
حج کی عبادت انواع واقسام کے اسباق ودروس  پر مشتمل ہے۔ پیش نظر مقالہ میں ہم اختصار کے ساتھ  ان شاء اللہ تعالی چند اہم اسباق کو ذکر کریں گے۔
۱۔ توحید
حج اپنے آغاز سے ہی توحید کا عظیم شعار اور زبردست معلم ہے۔ 
حج کا احرام باندھتے ہی حاجی تلبیہ پکارتا ہے۔ لبیک اللھم لبیک، لبیک لا شریک لک لبیک، ان الحمد والنعمۃ لک والملک، لا شریک لک۔ اے اللہ ! میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں ، تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں، ہرطرح کی تعریف تیرے لئے ہے، تمام نعمتیں تیری طرف سے ہیں، بادشاہت تیری ہے، میں حاضر ہوں۔ 
تلبیہ کی گونج ہرسوسنائے دےگی، حاجی خود بھی تلبیہ پکارے گا اور دوسروں سے بھی یہی کلمات سنے گا۔ اس میں توحید واخلاص کی شاندار تربیت ہے۔   توحید سے حج کا آغاز، پیہم توحید کی پکار، ایک عمل سے دوسرے عمل کی طرف منتقل ہوتے ہوئے توحید کا اعلان واقراراور شریک وساجھی کا انکار۔  یہی تو ملت ابراہیم ہے جس کی پیروی کا مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے۔  یہی توحید  ہے جس کے بغیر کوئی عبادت قابل قبول نہیں۔ 
 تلبیہ میں اللہ کی حمد کا نغمہ ہے، وہ حمدِ الٰہی جو اللہ سے قریب کرنے والی ایک محبوب عبادت ہے۔ 
 تلبیہ میں اللہ کی نعمتوں کا اعتراف ہے یعنی اللہ ہی ہمارا منعم ومحسن اور صاحب فضل وکرم ہے۔
 تلبیہ میں اللہ کی بادشاہت وسلطنت کا اعلان ہے یعنی وہی حقیقی بادشاہ ہے اور ہر شے کی ملکیت اسی کے پاس ہے۔ 
حاجی تلبیہ پکارتے ہوئے اس بات کا یقین رکھتا ہے کہ اس عمل میں پوری کائنات اس کے ساتھ ہے۔  رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:  ما من ملبي يلبي إلا لبى ما عن يمينه و عن شماله من شجر و حجر حتى تنقطع الأرض ها هنا ـ يعني عن يمينه و عن شماله (صحيح ابن خزيمة (4/ 176) قال الأعظمي : إسناده صحيح)۔ تلبیہ پکارنے والے کے ساتھ دائیں بائیں کے سارے شجر وحجر تلبیہ پکارتے ہیں یہاں تک کہ زمین کا سلسلہ ختم ہوجائے۔ 
 ساری کائنات اللہ کی توحید پر قائم ہے۔ اللہ کی تسبیح کررہی ہے۔ اللہ کی فرماں بردار ہے۔ اللہ کے حکموں کی تعمیل میں روز وشب لگی ہوئی ہے۔ اللہ کی بندگی میں کبھی کوئی کوتاہی نہیں کرتی۔
۲۔ اتباع سنت وشریعت
حج میں مختلف انداز سے اتباع سنت وشریعت کی تعلیم دی گئی ہے۔ حاجی کو یہ بات خوب اچھی طرح ذہن نشین ہوتی ہے کہ مجھے حج کے اعمال اسی وقت اور اسی جگہ انجام دینے ہیں جیسا کہ مجھے سکھایا گیا ہے، میں صرف حج کے مہینوں میں ہی حج کرسکتا ہوں، محرم یا ربیع الاول میں حج نہیں کرسکتا۔ 
ایسے ہی حاجی یہ بھی جانتا ہے کہ اسے حج کے سارے کام اسی کیفیت وکمیت میں ادا کرنا ہے جو شریعت کے مطابق ہے، اسے طواف کے سات چکر ہی لگانے ہیں، اپنی طرف سے کمی یا زیادتی نہیں کرسکتا،  اسے سعی کو صفا سے شروع کرکے مروہ پہ ختم کرنا ہے اس کے برعکس نہیں کرسکتا۔ 
 ایک حاجی یہ بات بھی خوب اچھی طرح سمجھتا ہے کہ حج کے تمام  کام اسی سبب سے کرنا ہے جس سبب سے اللہ کے رسول ﷺ اور آپ کے صحابہ نے کیا ہے،  مثال کے طور پر اگر طواف کی تکمیل کی بنا پر دو رکعتیں سنت سے ثابت ہیں تو سعی کی تکمیل پر اپنی جانب سے دو رکعتیں نہیں ادا کرسکتے کیونکہ تکمیل سعی کی بنا پر سنت سے دو رکعتیں ثابت نہیں ہیں۔ 
حاجی یہ بات بھی جانتا ہے کہ جہاں جو جنس استعمال کرنے کی تعلیم دی گئی ہے اسی جنس کا استعمال کرنا ہے، اپنی جانب سے من مانی نہیں کی جاسکتی۔ مثال کے طور پر ھدی (قربانی) میں مخصوص جنس بہیمۃ الانعام مقرر ہے تو اس کے علاوہ دوسرے جنس مثلاً ہرن کی قربانی نہیں کی جاسکتی خواہ وہ کتنا ہی قیمتی ہو۔
۳۔ یاد آخرت
حج آخرت کی یاد دلاتا ہے۔ میدان محشر کا سماں ذہن میں نکھارتا ہے۔ میدان عرفات ومزدلفہ ومنی میں جس طرح تمام حاجی اکٹھا ہوتے ہیں ، کسی کو کسی پر کوئی فضیلت وفوقیت حاصل نہیں ہوتی، اسی طرح سب کو ایک دن ایک کھلی زمین میں رب کے سامنے حاضر ہونا ہے۔
۴۔ حسن اخلاق
حج میں مختلف انداز سے حسن اخلاق اور حسن سلوک کی تعلیم ہے۔ ارشاد باری ہے: {الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَعْلُومَاتٌ فَمَنْ فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ} [البقرة: 197] [حج کے مہینے مقرر ہیں اس لئے جو شخص ان میں حج لازم کرلے وہ اپنی بیوی سے میل ملاپ کرنے ، گناہ کرنے اور لڑائی جھگڑے کرنے سے بچتا رہے ۔]  
حاجی جہاں ایک طرف بداخلاقی سے پرہیز کرتا ہے وہیں دوسری جانب خوش اخلاقی کو اپناتا ہے۔
صبر وتحمل  حسن اخلاق کا ایک حصہ ہے۔ حج میں اس  کی بھی تربیت ہے۔ ظاہر ہے کہ حج کا سفر مشقت سے خالی نہیں ہوگا اور حاجی اللہ کی خاطر سب کچھ برداشت کرے گا۔ 
حج میں قناعت کی بھی تربیت ہے کہ لباس کے معاملہ میں  بس دو چادریں پہننے پر اکتفا کرلیا اور مکان کے معاملہ میں صرف سونے کی جگہ سے زیادہ زمین کی تلاش نہیں۔ 
۵۔ اتحاد امت
حج اتحاد ویکجہتی کا عظیم الشان مظہر ہے۔ تمام حاجی خواہ کوئی بادشاہ ہویا فقیر، امیر ہو یا غریب، مکہ کا باشندہ ہو یا باہر سے آیا ہوا مسافر ،کالا ہو یا گورا، عربی ہو یا عجمی، مغربی ہو یا مشرقی، شمالی ہو یا جنوبی، سب کے سب ایک لباس میں ہوتے ہیں، ایک طرح کا تلبیہ  ان کی زبانوں پہ ہوتا ہے، ایک قبلہ کی طرف ان کا رخ ہوتا ہے، ایک طرح کے مقامات میں سب قیام کرتے ہیں، ایک ہی طرح کا عمل سب انجام دیتے ہیں۔ کعبہ پہنچ کر سب برابر ہیں، سب کے حقوق وفرائض ایک جیسے ہیں، رنگ ونسل کا کوئی فرق نہیں، جنس وقومیت کی کوئی تمیز نہیں۔ سب کا مقصد ایک رب کی عبادت اور اس کی رضا کا حصول،  ایک نبی کی اطاعت اور اس کی شریعت کی پیروی۔
اتحاد ہمیں قوت عطا کرتا ہے، دشمنوں کے دلوں پر خوف طاری کرتا ہے ، یہی سبب ہے کہ حج کا عظیم الشان اجتماع اہلِ کفر وضلالت کے دلوں میں رعب پیدا کرتا ہے ۔ اور صرف یہی وہ اجتماع ہے جس میں کفار ومشرکین سے قطعی علیحدگی اور دوری ہے، صاف طور پر قرآن مجید میں اعلان ہے کہ مشرکین مسجد حرام  کے قریب بھی نہ آنے پائیں۔
۶۔  انبیاء علیہم السلام کی مبارک اور پاکباز  ہستیوں سے قلبی ربط وتعلق اور وابستگی ۔  
 ایک حاجی مکہ پہنچ کر ابراہیم علیہ السلام اور ان کے صاحب زادے اسماعیل علیہ السلام اور ان کے تعمیروتطہیر  کعبہ کے عمل کو یاد کرتا ہے۔ نبی کریم محمد ﷺ نے جس طرح کعبہ کو شرک وبت پرستی سے پاک کرکے اسے توحید کے ساتھ عظمت واحترام عطا کیا وہ بھی یاد کرتا ہے۔ ان مبارک مقامات سے گزرتے ہوئے ان کے سیرت وکردار کی عظمتوں کو اپنے دل میں نقش کرتا اور ان کی اطاعت وپیروی میں اپنی زندگی گزارنا چاہتا ہے۔ نبی ﷺ بھی ان مقامات سے گزرتے ہوئے اپنے صحابہ سے انبیاء علیہم السلام کا ذکر فرمایا کرتے تھے ،چنانچہ صحیح مسلم(حدیث : 268)  میں یہ روایت مذکور ہے کہ ” رسول اللہ ﷺ کا وادی ازرق سے گزر ہوا تو آپ نے دریافت کیا کہ یہ کون سی وادی ہے؟ لوگوں نے جواب دیا: یہ وادی ازرق ہے۔ آپ نے فرمایا: گویا میں موسی علیہ السلام کو دیکھ رہا ہوں کہ آپ گھاٹی سے اتر رہے ہیں اور بہ آواز بلند تلبیہ پکاررہے ہیں۔  پھر آپ کا گزر کوہ ھرشی کے پاس سے ہوا  آپ نے پوچھا : یہ کون سا ٹیلہ ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ کوہ ھرشی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: گویا میں یونس علیہ السلام کو دیکھ رہا ہوں جو اپنی سرخ، صحتمند وپرگوشت اونٹنی پر سوار ہیں، اونی جبہ زیب تن کئے ہیں، اونٹنی کی نکیل کھجور کے پتوں سے بٹی ہوئی ہے، آپ لبیک لبیک پکار رہے ہیں“۔ 
۷۔ حج کے دوران سفید کپڑوں کا احرام پہننا اپنے اندر بہت سے معانی رکھتا ہے۔ 
 سفید احرام کا اختیار لباس کی صفائی کے ساتھ ساتھ اپنے اندرون کی صفائی، قلبی طہارت اور باطن کی پاکیزگی پر دلالت کناں ہے۔  ساتھ ہی اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ ہمارا عقیدہ ومنہج بھی اسی لباس کی طرح بالکل صاف ستھرا اور روشن وبے داغ ہونا چاہئے۔ نیز بے سلا لباس کے ذریعہ ایک حاجی  دنیاوی زیب وزینت کو چھوڑ کر اللہ کے سامنے اپنی فقیری ومسکینی اور عاجزی وبے بسی کا اظہار کرتا ہے نیز موت وکفن کو بھی یاد کرتا ہے کہ ایک دن اس عالم فانی کو خیرباد کہہ کر اللہ کے سامنے حاضری دینا ہے۔ 
۸۔ میقات سے احرام کی تعیین میں بھی بہت سے اسرار ورموز پنہاں ہیں۔
 مکہ سے کافی پہلے اللہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے میقات پر احرام باندھ لینا اور بہت سی چیزوں سے اپنے آپ کو بچانا اللہ کی عبودیت وبندگی کا شعور واحساس اور اس کی شریعت کے سامنے سرتسلیم خم کردینا ہے۔  حج پر آنے والے تمام مسلمانوں کا میقات سے احرام میں ہوجانا ان کے اتحاد ویکجہتی اور اجتماعیت  کا مظہر ہے۔ امت کو نظم وضبط کی تعلیم دیتا ہے۔  امت پر یہ اللہ کا انتہائی فضل وکرم بھی ہے کہ انھیں میقات کی تعیین کے ذریعہ اپنی بندگی کے صحیح طور وطریق سکھادیئے ورنہ باہمی اختلاف کا شکار ہوجاتے ، کوئی کہیں سے احرام باندھنے کو بہتر سمجھتا اور کوئی کہیں اور سے، اور اگر ایسا نہ ہوتا تو کم از کم شک وتردد کا شکار تو ہوہی گئے ہوتےکہ بندگی درست طور پر ہورہی ہے یا نہیں۔ 
 خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو حج سے ہرطرح استفادہ کرتے ہیں، اس کا ایک ایک سبق خوب اچھی طرح ذہن نشین کرتے ہیں، حج سے واپسی کے بعد ان کے فکر وعمل میں مزید روشنی اور بلندی آتی ہے،  ان کی زندگی پہلے سے بہتر ہوجاتی ہے اور اللہ کی رضا کے کاموں میں صرف ہوتی ہے۔ 
ھذا والحمد للہ رب العالمین وصلی اللہ علی نبینا وسلم
( إعداد : عبد الهادي عبد الخالق مدنی عفا الله عنه )











Post a Comment

0 Comments