Main Menu Bar

انگریزی میری ضرورت نہیں🖋🌾✒ شرافت علی مبارک🖋✋✋💖 انگریزی اس ملک میں کوئی نہیں بولتا، بمشکل ایک یا دو فیصد لوگ سمجھتے ہیں۔ ہمارے ملک کی

انگریزی میری ضرورت نہیں🖋🌾✒

شرافت علی مبارک🖋✋✋💖

انگریزی اس ملک میں کوئی نہیں بولتا، بمشکل ایک یا دو فیصد لوگ سمجھتے ہیں۔ ہمارے ملک کی منڈیوں اور بازاروں میں یہ زبان نہ بولی جاتی ہے اور نہ سمجھیں جاتی ہے۔ ہمارے شفاخانوں میں بھی اس کا استعمال نہیں ہوتا۔ کھیل کے میدانوں میں بھی اس کی ضرورت نہیں۔ مساجد اور مدارس میں بھی اس کی ضرورت نہیں پڑتی۔ مجالس اور ڈیوڑیوں میں بھی اس کا چلن نہیں۔ سنا ہے سرکاری دفاتر اور عدالتوں میں مقامی اور قومی زبان کے بجائے انگریزی لکھی پڑھی جاتی ہے۔

مجھے حیرت ہے کہ اس ملک میں جس زبان کا سرے سے چلن نہیں وہ ہمارے سرکاری دفاتر میں حکمرانی کیوں کررہی ہے۔ کیا ان دفاتر میں براجمان لوگ پاکستانی نہیں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ دفاتر میں لوگ پاکستانی ہیں لیکن وہ انگریزوں کی طرح صلیب والئ ٹائی پہنتے ہیں۔ انگریزی سوٹ پہنتے ہیں۔ منہ ٹیڑا کرکے انگریزی بولنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں اور پرانی فائلوں سے نقل کرکے گھسے پٹے پرانے متروک الفاظ پر مشتمل انگریزی لکھتے ہیں۔

میں بجلی کے دفتر میں گیا وہاں لوگ اردو بولتے تھے لیکن ان کے میلے کچیلے میزوں پر پڑی فائل پر انگریزی لکھ ہوئی تھی۔سوئی گیس، بلدیہ اور فراہمی آب کے دفاتر کا بھی یہی ماحول تھا۔

ہاں انگریزی میڈیم سکول میں سر سے ننگی، آدھی آستینوں والی قمیضیں اور ننگی پنڈلیوں والی خواتین ضرور دکھائی دیں جو مجھے کسی اور ملک کی مخلوق دکھائی دے رہی تھی۔ شاید حکمران انگریزی میڈیم سے اسی طرح کی مادر پدر آزاد قوم تیار کرنا چاہتی ہے۔

میں حیران ہوں کہ میرے محلے میں گاڑیوں کی ورکشاپ میں ایک دوسال لگانے والے چھوٹو بہترین کاریگر بن کر اپنے کاروبار کررہے ہیں جبکہ آٹو انجینئرنگ میں تین سالہ ڈپلومہ (انگریزی میں رٹ) کے حاملین کریم ٹیکسیاں اور رکشے چلا رہے ہیں۔ بڑی بڑی یونیورسٹیوں سے ایم بی اے کرنے والے ان پڑھ سیٹھوں کے منشی بنے ہوئے ہیں۔ ڈی فارمیسی کرنے والے سیٹھوں کی دوائیں لیے گلی گلی دھکے کھارہے ہیں اور سیٹھ کے ساتھ چند سال لگانے والے ان پڑھ اپنی ڈسٹریبیوشن کمپنیاں بنا کر بڑے بڑے کاروبار کررہے ہیں۔

میں نے بہت غور کیا تو پتا چلا کہ انگریزی پڑھ کر لڑکے ریلوے کے ٹکٹ فروش اور ٹکٹ چیکر بنتے ہیں۔ ڈاکیے اور کلرک بن جاتے ہیں۔ حکمرانی کرنے کے لیے ہمارے بڑوں کے بچے امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا سے ڈگریاں لے آکر آتے ہیں۔

جو نوجوان رٹا لگا کر میڈیکل اور انجنیئرنگ میں اچھے نمبر لے لیں انہیں مغربی اور عرب ممالک بڑے بڑے لالچ دے کر اپنی خدمت کے لیے نوکر رکھ لیتے ہیں۔ یعنی انگریزی میں جو لائقی دکھائیں وہ اپنے گھر کی تزئین وآرائش کے بجائے غیروں کے خدمت گار بن جاتے ہیں۔

یعنی یہ انگریزی ہمارے بچوں کو کریم کپتان، رکشہ ڈرائیور، سیل مین اور ڈاکیے بناتی ہے۔ جو پڑھ لکھ جائیں انہیں اچھے داموں خرید لیا جاتا ہے، یعنی انہیں اپنے گھر، والدین، بھائیوں اور ارض پاک سے کوئی محبت نہیں رہتی۔ وہ روکھی سوکھی کھا کر اپنے والدین اور اپنے وطن کی دیکھ بھال نہیں کرتے بلکہ چند ٹکوں کے لیے اغیار کی خدمت گزاری میں خوش رہتے ہیں۔ ایسے نمک حرام کہ ہمارے پیسوں پر پڑھ لکھ کر گھر سے بھاگ جاتے ہیں۔

انگریزی تو بس ان لوگوں کی ضرورت ہے جو دنیا کے چار ممالک کے ساتھ کاروبار کرنا چاہتے ہیں امریکہ، برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا۔ ہمیں تو بھارت، چین، ایران اور افغانستان سے زیادہ لین دین کرنا پڑتا ہے۔ کچھ سامان جاپان اور کوریا سے آتا ہے۔ مغربی استعمار تو اپنی منڈیوں تک ہمیں رسائی ہی نہیں دیتا۔
جو زبان ہمیں ڈاکیے، ٹکٹ فروش، کلرک اور سکول ماسٹر، رکشہ ڈرائیور اور کریم کپتان سے آگے نہ جانے دے وہ ہماری ضرورت نہیں

ہم بچوں کو احسان فراموش اور دوسروں کے خدمت گار بھی نہیں بنانا چاہتے

اس لیے مجھے انگریزی کی ضرورت نہیں۔ ہم اردو میں بجلی، گیس، پانی کے بل بناسکتے ہیں۔ ہم بچوں کو جدید علوم اردو میں پڑھا سکتے ہیں۔ جیسے چین، روس، ایران اور اسرائیل والے پہلی سے پی ایچ ڈی کی تعلیم انگریزی کے بغیر مقامی زبانوں میں دلواتے ہیں۔

اس لیے مجھے اور میری قوم کو انگریزی کی ضرورت نہیں۔ اب انگریزی سے نجات کے لیے ان پاکستان دشمنوں کو تلاش کرکے نشانے پر رکھنے کی ضرورت ہے جو اس قوم کی تباہی کے ذمہ دار ہیں۔ ان دشمنوں کو ہر گلی اور کوچے میں ذلیل کرنے کی ضرورت ہے ورنہ یہ سیاہ رات کبھی ختم نہیں ہوگی۔😭🙏🤔

تحریک نفاذ اردو پاکستان📚📚📚











Post a Comment

0 Comments