Main Menu Bar

اے حاکم ملک و قوم بتا ! یہ کس کا لہو ہے. کون مرا.

اے حاکم ملک و قوم بتا !
 یہ کس کا لہو ہے. کون مرا.

منڈی فیض آباد ضلع ننکانہ صاحب کے نواحی گاوں سلیم پور کچہ میں فیاض احمد آرائیں اپنی 30 سالہ بیگم سلیم بی بی اور اپنی تین بیٹیوں 5 سالہ رابعہ 3سالہ مسکان اور 1.5 سالہ انم کے ساتھ رہایش پذیر تھا. 
فیاض احمد محنت مزدوری کر کے اپنا اور اپنے اہل و عیال کا پیٹ پالتا.  کبھی کسی زمیندار کے کھیتوں میں کام کرتا تو کبھی منڈی فیض آباد میں جا کر کام کرتا اور یوں بمشکل اپنے اہل و عیال کا گزر بسر کرتا. فیاض احمد کے کوئی نرینہ اولاد نہ تھی یہ بات کبھی کبھار اسکو رنجیدہ کر دیتی . 
کرونا وائرس لاک ڈاون کی وجہ سے روزانہ اجرت پر کام کرنے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد متاثر ہوئی ان میں ایک سلیم پورہ کچہ کا رہائشی فیاض احمد بھی تھا. 
گھر میں کبھی فاقہ کبھی کوئی روکھی سوکھی, کبھی کام مل گیا کبھی سارا دن بے کار, پریشان, مستقبل کی سوچوں میں گم , کبھی شہر جاتا تو اپنی ننھی مسکان اور انم کیلے گڑیا خریدنے کا دل کرتا لیکن جیب اجازت نہ دیتی تو منہ لٹکا ئے واپس گھر آجاتا. 
پچھلے ایک ہفتے سے فیاض احمد کو کوئی خاص کام نیہں مل رہا تھا اوپر آٹا بہت مہنگا ہو گیا تھا کریانے والا اب مزید ادھار دینے سے بھی انکاری تھا .گھر میں ایک وقت روٹی پکتی تو پھر فاقہ. 
فیاض احمد اور اسکی بیوی سے بچوں کے فاقے دیکھے نہیں جا رہے تھے .
12 جولائی کی شام کو فیاض احمد خالی ہاتھ گھر آیا تو دیکھا کہ 5 سالہ رابعہ  چھوٹی روتی بلکتی انم کو چپ کرانے کی کوشش کر رہی تھی. بیوی نے بتایا کہ بھوک سے بچوں کا برا حال ہے۔ کیا گزری ہو گی اس باپ پر اپنی پانچ سال کی بچی کے حوصلے کو دیکھہ کر کہ وہ اپنی چھوٹی ڈیڑھہ سالہ بہن کو دلاسہ دے رہی ہے کہ بابا آئیں گے تو کھانا لائیں گے ۔۔۔ میں بھی پانچ سال کی بچی کا باپ ہوں میرا تو تصور کر کے روح کانپ گئی اور آنکھیں برس رہی ہیں ۔۔۔ 😭😭😭
اس رات دونوں میاں بیوی نے حالات سے دل برداشتہ ہو کر ایسا خوفناک منصوبہ بنایا کہ جس سے دل دہل جائیں اور کلیجہ منہ کو آجائے۔ کیا کوئی اس حد تک بھی مجبور ہو سکتا ہے ۔۔۔ کیا اسکے پڑوسی محلے دار رشتہ دار کوئی نہیں تھا اس قابل جنکا خیال میاں بیوی کو ایسا فیصلہ کرتے وقت آتا۔ یقینن سوچا ہو گا دونوں نے مگر اس غرضکی دنیا اس مطلب کی محلے داری اور دکھاوے کی رشتہ داری نے مزید کچھہ سوچنے نہ دیا ہو گا۔ انکو بچوں سمیت مرنا زیادہ آسان لگ رہا ہو گا ۔۔۔ 
اس نام کی سفید پوشی، پگڑی کا اونچا نیچا معاشرہ اور لاوارث ریاست کے لاوارث شہری سب تباہ کر دیا ہے اس گندے کلچر نے ۔۔۔ 
اگلے روز بچوں کو شاید سیر کا بہانہ بنا کر دونوں میاں بیوی نے بچوں کو ساتھ لیا. کیا خواب دیکھا ہو گا اس پانچ سال کی بچی نے کہ رات تو بھوکی گزر گئی اب بابا سیر بھی کرائیں گے اور جی بھر کے کھانا بھی کھلائیں گے ۔۔۔ موٹر سائیکل کرایہ پر لیا گیا اور کیو بی لنک نہر کی جانب رخ کر لیا. 
کیو بی لنک نہر کے کنارے موٹرسائیکل کھڑا کیا . ماں نے اپنی ڈیڑھ سالہ انم کو چوما تو ہو گا آخری بار, باپ نے آخری بار مسکان اور رابعہ کو دیکھا تو ہو گا اس حسرت کہ کاش انکو بھی زندگی جینے کا موقع ملتا . اور اس لمحے میاں بیوی نے بچوں سمیت کیو بی لنک نہر میں چھلانگ لگا دی. اور اپنی اور بچوں کی زندگی کو اس تکلیف سے نجات دلا دی جسمیں وہ پل پل مر رہے تھے اور جرم صرف غربت تھا۔ 
بہت سے لوگ اسکو بزدلی بھی کہیں گے آپشنز بھی گنیں گے کہ یہ کر لیتا وہ کر لیتا۔ تم نے اتنا اچھا معاشرہ بنایا ہوتا تو نوبت یہاں تک آتی ہی نہ۔ نہ فیاض اتنا مجبور ہوتا کہ اسے موت آسان لگتی جینے سے ۔۔۔ 
دو دن گزر چکے ہیں ابھی تک پانچ سالہ رابعہ کی لاش ملی ہے باقی کی لاشیں نہیں مل سکیں .ریسیکو آپریش جاری ہے. 
سوڈان کے ایک خطیب محمد الباقی نے دنیا کا جمعہ کا مختصر ترین خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا کہ بھوکے اور مسکین کے پیٹ میں ایک لقمہ کھانے کا دینا 1000 مسجد کی تعمیر سے بہتر ہے .صفیں درست کر لیں. 
منڈی فیض آباد میں چاول کی بہت منڈی ہے بے شمار چاول کی ملیں ہیں .یہاں لاکھوں بوریاں چاول کی تیار ہوتی ہیں . لیکن  کسی حاجی صاحب کو یہ توفیق نہ ہوئی کہ وہ ننھی انم کے گھر ایک بوری چاول کی بھیج سکتا . 
یقیننا روز قیامت انم ,مسکان اور را بعہ ان سب حاجی صاحبان کا گریبان پکڑ کر اللہ سے عرض کریں گئی کہ الہی ہم  بھوکی تھیں ہم پیاسی تھیں تیرے ان بندوں نے اپنی مسکانوں کی خوشیوں کیلے لاکھوں اڑا دئیے لیکن ہم تک کھانے کا ایک لقمہ نہ دیا. 
اس لیے روز قیامت ایسے ہی ریا کاروں سے اللہ مخاطب ہو گا کہ میں بھوکا تھا مجھے کھانا کیوں نہ دیا.
میں تو حیران ہوں کہ۔معاشرہ کتنا بے حس ہو چکا ہے کہ کسی کو اتنا معلوم کرنے کی توفیق نئیں ہوئی کہ پڑوسی کس حال میں ہیں ۔۔۔۔
خدارا اپنے اندر کے تعصب اور پولیٹیکل سکورنگ کیوجہ سے تحریک انصاف اور ریاست مدینہ کی ڈرامے بازیاں پوسٹ پر مت کرنا۔ مرنے والا مر جاتا ہمیں فضول قسم کی تنقید تضحیک اور تذلیل کا موقع مل جاتا ہے۔ نواز زرداری مشرف غرضیکہ 70 سالوں سے یہی ہو رہا ہے۔ ہم بے حس ہو چکے ہیں ہم خود غرض ہو چکے ہیں ۔۔۔ اور ہماری اسی گندی عادت نے ہمارا اور ہمارے بچوں کا مستقبل تباہ کر دیا ہے اور وہ وقت دور نئیں کہ ہمارے نان سیریس رویے ایک اور ایتھوپیا بنا دیں گے ۔۔۔
خدارا آج ہی اپنے ارد گرد دوستوں پڑوسیوں رشتہ داروں میں دیکھو۔ لوگ سفید پوشی میں موت کو ترجیح دیتے ہیں اور دے رہے ہیں کسی سے مدد مانگنے پر ۔۔۔
خدارا نمبر ون کے بخار سے باہر نکو🙏۔ زکات میں نمبر ون فلاں میں نمبر ون فلان میں نمبر ون۔ زمینی حقائق کو جانو سمجھو اور اپنے اور اپنی اولادوں کے مسقبل کی خاطر اپنے آپکو سنوارو۔ حقیقت کو تسلیم کرو، نمبر ون ہو کر کیا مل جان ہے ہمیں۔ نئیں چاہئیے ہمیں نمبر ون صرف صرف امن سکون اور خوشحال معاشرہ چاہئیے۔ عالمی ادارے کی رپورٹس کے مطابق پاکستان میں ہر سال صرف بھوک سے مرنے والوں کی تعداد اور شرح دیکھو تو شرما جاو گے اپنے نمبر ون ہونے پر۔۔۔














Post a Comment

0 Comments