Main Menu Bar

آج کے نوجوان کو بیروزگاری سے اتنی شرم محسوس نہیں ہوتی جتنی کسی عام قسم

آج کے نوجوان کو بیروزگاری سے اتنی شرم محسوس نہیں ہوتی جتنی کسی عام قسم کے کام سے ہوتی ہے. یہ سوچ کیسے عام ہوئی.؟ یہ ہم نے مل کر بنائی ہے. اس سوچ کی روح صرف ایک فقرے ایک سوال میں ہے. " لوگ کیا کہیں گے." ؟

آپ نوجوان ہیں. آپ کاغذ قلم لیں وہ سب لکھیں جو آپ لوگوں کو دکھانے کیلئے کر رہے ہیں یا کرنا چاہتے ہیں. دوسرے کاغذ پر صرف وہ لکھیں جو خود کیلئے کرنے کی خواہش ہے. آپ کو حیرت کا جھٹکا لگے گا. آپ زندگی دوسروں کیلئے بسر کر رہے ہیں. آپ سوچ میں پڑھ جائیں گے اس زندگی میں میں کہاں ہوں..؟

یہ جو دوسروں کی تسکین پر اپنی زندگی استوار کرتے ہیں ان کی مثال اس ٹی وی جیسی ہوتی ہے جسکا ریموٹ لوگوں کے پاس ہو. لوگ اپنی خواہشات پر اس کے چینلز بدل رہے ہوتے ہیں کوئی ایک پروگرام بھی انکا مکمل نہیں ہوتا. زندگی تماشا بن جاتی ہے. ایک وقت آتا ہے یہی نوجوان بڑھاپے میں جب اس زندگی کو سوچتا ہے تو اسے صرف پچھتاوے ملتے ہیں. بوڑھوں پر ہوئے ہر سروے میں ایک بات مشترکہ ہوتی ہے. ان کو اپنے کئے ہوئے کام پر نہیں نہ کئے کاموں پر پچھتاوا ہوتا ہے. یہ کیوں ہوتا ہے.؟ کیونکہ انہوں نے اپنی زندگی خود بسر کی ہی نہیں ہوتی.

دیکھیں آپ نوجوان ہیں. بیروز گار ہیں تو بس ایک کام کریں. لوگ کیا کہیں گے سے بغاوت کر لیں. لوگوں سے کہیں بھاڑ میں جاو اور کچھ کریں. ریڑھی لگائیں ٹھیلہ لگائیں سبزی بیچیں یا ٹیکسی چلائیں. جو بھی کریں خود کیلئے کریں. لوگوں کی شرم چھوڑ دیں. اپنا ریموٹ زمانے کو نہ دیں. آپ کو کبھی پچھتاوا نہیں ہوگا.

اپنا ریموٹ دوسروں کو دینے والا کروڑ پتی بھی ہو تب بھی ہر سال گاڑی کا ماڈل بنگلے کی آرائش بدل رہا ہوتا ہے. دن بھر کی محنت کے بعد شام کلبوں محفلوں میں گھوم گھوم کر لوگوں دکھا سنا رہا ہوتا ہے. کیونکہ اسے لوگوں کی تعریف کی ضرورت ہوتی ہے. اس کی تسکین دوسرے کے تسلیم کرنے میں ہوتی ہے. یہ کروڑ پتی ہوتے بھی بھکاری ہوتا ہے. تعریف و توصیف کی بھیک مانگتا ایک بھکاری.














Post a Comment

0 Comments