Main Menu Bar

جولی نے عجب قسمت پائی ہے ! نومبر دو ہزار سولہ

جولی نے عجب قسمت پائی ہے ! 

نومبر دو ہزار سولہ کی ایک رات اسلام آباد ہوٹل میں سونے کی تیاری کر رہا تھا کہ کسی نے سیالکوٹ کے خواجہ سراؤں پر تشدد کی ویڈیو بھیجی اور ساتھ ہی دوپٹہ اوڑھے ایک خواجہ سرا کی گفتگو بھی بھیج دی ، اس گفتگو میں آنسو، درد اور خود پر بیتی ہوئی کہانی کا بیان تھا، 

ویڈیو دیکھتے ہی نیند اڑ گئی، جان من وقاص خان کمرے آئے تو انکو بھی ویڈیو دکھائی اور بیڈ پر بیٹھے دونوں دیر تک خواجہ سراؤں کے مسائل پر کڑھتے رہے، ایک طرف صبح جلدی پروگرام شروع ہونے کی فکر تھی تو دوسری طرف مظلوم خواجہ سرا کی گفتگو سونے نہیں دے رہی تھی، 

پتا نہیں کیسے نیند آئی اور کب آئی 

لیکن اس وقت جس خواجہ سرا نے اپنا دکھ بیان کیا تھا اس وقت اسکا لہجہ دل و دماغ میں بیٹھ گیا تھا، خواجہ سراء کا کہنا تھا کہ میرے ساتھ فیصل آباد میں اچھا نہیں ہوا فیصل آباد چھوڑ کے سیالکوٹ آئی تو یہاں ججا بٹ کے غنڈوں نے ساری رات تشدد کیا اور ہمارے ساتھ زیادتی کی ، ہمارا تو کوئی والی وارث بھی نہیں، شاید ہمارے لیے کسی ضلع میں جگہ ہی نہیں، 

یہ باتیں کرنے والا خواجہ سرا جولی تھا جس نے فیصل آباد کے بعد سیالکوٹ کے غنڈوں کا تشدد برداشت کیا ،جولی اسکے بعد کہاں تھی کیا کرتی رہی کچھ خبر نہ ہو سکی، 

پھر ایک دن جولی کی ویڈیوز سامنے آئیں تو دیکھنے والے دیکھتے رہ گئے، جولی کے لہجے میں تلخی تھی اور زبان پر دانش مندانہ گفتگو، جس جس نے جولی کو سنا سننتا رہ گیا، زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے شخص کو جولی نے متاثر کیا، لوگ حیران تھے کہ ایک خواجہ سرا اتنا دانش مند کیسے ہو سکتا ہے؟ 

قدرت نے دانش کسی جنس کیساتھ خاص نہیں کی، دانش ہر ایک کو عطا کی گئی، جن کو اسٹیج مل گیا وہ ظاہر ہو گئے، جنہیں اسٹیج نہ مل سکا وہ گلیوں میں ججے بٹوں کے ہاتھوں رلتے رہے، جولی نے اپنی دانش کا سکہ منوایا، لوگوں نے اسے سنا اور پیار دیا، لوگوں کی رائے خواجہ سراؤں کے حوالے سے بدلی، 

چاہیے تو یہ تھا کہ جولی کو پلکوں پر بٹھایا جاتا مگر ہوا اس کے برعکس، 

جولی پر اسکے اپنے ہی خواجہ سراؤں نے ایف آئی آر درج کروا کے اسے گرفتار کروا دیا ہے ، جولی اب اڈیالہ جیل میں ہے، اس آگے بڑھنے اور اپنے کمیونٹی سے برائیوں کو ختم کرنے کی سزا مل رہی ہے، پولیس جولی کو اٹھا کر لے گئی ہے ،

گرفتاری کے وقت جولی پر تشدد بھی کیا گیا 

پولیس کو کیا خبر کہ وہ جولی کو نہیں اس سماج کے چہرے کو گرفتار کر رہے ہیں، بندوق دلیل اور دانش سے بے خبر رہی، بندوق والوں کا ہاتھ ہمیشہ دانشوروں کے گریبانوں میں رہا ، پولیس سے کیا کہنا ؟  انہوں نے فرض نبھایا اور ایک سچی آواز کو سبق سکھانا ضروری سمجھا، 

سماج کا تشدد جولی کو اگر کمزور نہ کر سکا تو جیل جولی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی، جولی مزید نکھر کر سامنے آئے گی، 

جولی نے بہت بڑا بیڑا اٹھایا ہے 

وہ گرو سسٹم کو مضبوط کرنے کی بجائے اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ گرو ماں باپ کا نعم البدل نہیں ہو سکتے، ماں باپ کو چاہیے کہ وہ ہمارے لیے لڑیں، وہ ہمیں قبول کریں، ہمیں ڈیروں کی بجائے اپنے گھروں میں جگہ ملے، جولی گرو سسٹم سے بھی بغاوت کر رہی تھی بغاوت کی سزائیں ملتی ہیں، 

جولی کو پہلے معاشرے نے ستایا اور خوب ستایا، پھر معاشرے نے قبول کیا تو اپنے ہی مقابل آ گئے، اس سوسائٹی نے جولی کیساتھ حساب کتاب موقع پر ہی برابر کیا، سوسائٹی نے کبھی جولی کو جیل کا پھاٹک نہیں دکھایا، جولی جیل سے دور رہی، جولی کے سینے پر کئی زخم ہیں شاید وہ بھول بھی جائے لیکن اپنوں کا زخم نہیں بھولتا،

جولی آپ نے عجب قسمت پائی ہے کبھی غیر مقابل کبھی اپنے مقابل ، ابھی آپ کو مزید دکھ دیکھنے ہیں، ہمت نہ ہارنا، جہاں چند لوگ آپ کے خلاف ہیں وہاں کئی لوگ آپ کے لیے لکھ رہے ہیں ،بول رہے ہیں، اور آواز بلند کر رہے ہیں، 

جولی! 

ہمارے لفظ آپ کے لیے ،ہماری دعائیں آپ کے نام! خدا کرے آزادی کی صبح طلوع ہو اور بری امام فقیر کے دربار میں بیٹھ کر آپ کو سن سکوں -

تحریر عامر ہزاروی 
#justiceForJoli
Share if u care














Post a Comment

0 Comments