Main Menu Bar

احمد مشتاق کو 88 ویں سالگرہ مبارک💐

 خیر اوروں نے بھی چاہا تو ہے تجھ سا ہونا

یہ الگ بات کہ ممکن نہیں ایسا ہونا
احمد مشتاق کو 88 ویں سالگرہ مبارک💐
اِک زمانہ تھا کہ سب ایک جگہ رہتے تھے
اور اب کوئی کہیں کوئی کہیں رہتا ہے
کئی چاند تھے سرِ آسماں کہ چمک چمک کے پلٹ گئے
نہ لہو مرے ہی جگر میں تھا، نہ تمہاری زلف سیاہ تھی
مل ہی جائے گا کبھی، دل کو یقیں رہتا ہے
وہ اسی شہر کی گلیوں میں کہیں رہتا ہے
دل فسردہ تو ہوا دیکھ کے اس کو لیکن
عمر بھر کون جواں، کون حسیں رہتا ہے
رہ گیا مشتاق دل میں رنگِ یادِ رفتگاں
پھول مہنگے ہوگئے قبریں پرانی ہوگئیں
میں نے کہا کہ دیکھو یہ میں، یہ ہوا، یہ رات
اس نے کہا کہ میری پڑھائی کا وقت ہے
ان کو سوچ میں گم دیکھ کر واپس پلٹ آئے
وہ اپنے دھیان میں بیٹھے ہوئے اچھے لگے ہم کو
بہت شفاف تھے جب تک کہ مصروف تمنا تھے
مگر اس کار دنیا میں بڑے دھبے لگے ہم کو
کہیں امید سی ہے دل کے نہاں خانے میں
ابھی کچھ وقت لگے گا اسے سمجھانے میں
موسمِ گل ہو کہ پت چھڑ ہو بلا سے اپنی
ہم کہ شامل ہیں نہ کھلنے میں نہ مرجھانے میں
ہے یوں ہی گھومتے رہنے کا مزا ہی کچھ اور
ایسی لذّت نہ پہنچنے میں نہ رہ جانے میں
تجھ سے دوری میں بھی خوش رہتا ہوں پہلے کی طرح
بس کسی وقت برا لگتا ہے تنہا ہونا
یوں مری یاد میں محفوظ ہیں ترے خد و خال
جس طرح دل میں کسی شے کی تمنّا ہونا
زندگی معرکۂ روح و بدن ہے مشتاق
عشق کے ساتھ ضروری ہے ہوس کا ہونا
کیسے مکاں اجاڑ ہوا، کس سے پوچھتے
چولھے میں روشنی تھی نہ پانی گھڑے میں تھا
اٹھا جو شور تو اہلِ ہوس نے گھبرا کر
زمین لیز پہ دے دی، کسان بیچ دیا
کمروں میں اجنبی مکیں تھے
کچھ کہہ نہ سکے مکان سے ہم
محفل تو جمی رہے گی مشتاق
اٹھ جائیں گے درمیان سے ہم
چاند بھی نکلا، ستارے بھی برابر نکلے
مجھ سے اچھے تو شبِ غم کے مقدر نکلے
شام ہوتے ہی برسنے لگے کالے بادل
صبح دم لوگ دریچوں میں کھلے سر نکلے
کل ہی جن کو تری پلکوں پہ کہیں دیکھا تھا
رات اسی طرح کے تارے مری چھت پر نکلے
دلِ ہنگامہ طلب یہ بھی خبر ہے تجھ کو
مدتیں ہو گئیں اک شخص کو باہر نکلے
عشق میں کوئی وقت نہیں
دن اور رات برابر ہے
باہر خوب ہنسو، بولو
رونے دھونے کو گھر ہے
دکھہ کی مسلیں چار طرف
دل بھی میرا دفتر ہے
نکلے تھے کسی مکان سے ہم
روٹھے رہے اک جہان سے ہم
جو شان تھی ملتے وقت مشتاق
بچھڑے اسی آن بان سے ہم
یہ تنہا رات یہ گہری فضائیں
اسے ڈھونڈیں کہ اس کو بھول جائیں
یہ پانی خامشی سے بہہ رہا ہے
اسے دیکھیں کہ اس میں ڈوب جائیں
مزہ تو یہ ہے کہ وہ خود تو ہے نئے گھر میں
اور اس کی یاد پرانے مکاں میں رہتی ہے
اگرچہ اس سے مری بے تکلفی ہے بہت
جھجک سی ایک مگر درمیاں میں رہتی ہے
ہزار جان کھپاتا رہوں مگر پھر بھی
کمی سی کچھ مرے طرزِ بیاں میں رہتی ہے
دل بھر آیا کاغذ خالی کی صورت کو دیکھ کر
جن کو کہنا تھا وہ سب باتیں زبانی ہو گئیں
دلوں کی اور دھواں سا دکھائی دیتا ہے
یہ شہر تو مجھے جلتا دکھائی دیتا ہے
جہاں کہ داغ ہے، یاں آگے درد رہتا تھا
مگر یہ داغ بھی جاتا دکھائی دیتا ہے
یا ایک فریب ہے محبت
یا میرے نصیب میں نہیں ہے
سایا ہی نہیں رہا وہ مشتاق
دیوار تو آج بھی وہیں ہے
وہ جو رات مجھ کو بڑے ادب سے سلام کر کے چلا گیا
اسے کیا خبر مرے دل میں بھی کبھی آرزوئے گناہ تھی
نئے دیوانوں کو دیکھیں تو خوشی ہوتی ہے
ہم بھی ایسی ہی تھے جب آئے تھے ویرانے میں
موسم کا کوئی محرم ہو تو اس سے پوچھو
کتنے پت جھڑ ابھی باقی ہیں بہار آنے میں
کبھی خواہش نہ ہوئی انجمن آرائی کی
کوئی کرتا ہے حفاظت مری تنہائی کی
ہم سے پہلے بھی سخن ور ہوئے کیسے کیسے
ہم نے بھی تھوڑی بہت قافیہ پیمائی کی
ہے یوں ہی گھومتے رہنے کا مزا ہی کچھ اور
ایسی لذّت نہ پہنچنے میں نہ رہ جانے میں
ہر بوسے کو نصیب نہیں لمحہَ نشاط
جسموں میں جاگتی ہے یہ لذت کبھی کبھی
گھر کی باس اور جسم کی خوشبو بڑ ے بڑ وں کو بھلا دیتی ہے
مجھ میں کیا سرخاب کا پر ہے آخر کیوں تجھ کو یاد آؤں
پانی میں کانپتے ہیں ابھی تک پلوں کے عکس
وہ سیلِ بے پناہ تو کب کا گزر گیا
وہ اپنے گھر میں رہے خوش، ہم اپنے گھر میں خوش
یہ تجربہ تھا محبت میں کامیاب رہا
مزہ تو یہ ہے کہ وہ خود تو ہے نئے گھر میں
اور اس کی یاد پرانے مکاں میں رہتی ہے
باغ کہیں ، شجر کہیں ، شاخ کہیں ، ثمر کہیں
آج ورق ورق ملی، عہدِ بہار کی کتاب
وہ جن کے ساتھ چلتا تھا زمانہ
ابھی اس راہ سے تنہا گئے ہیں
خشک تالاب ، ٹوٹی ہوئی سیڑ ھیاں ، ادھ کِھلے پھول، پر سوختہ کھڑ کیاں
پھر کوئی شہر آنکھوں میں پھرنے لگا، پھر مجھے راستے یاد آنے لگے
ایسی بستی سے تو اچھا ہے بیاباں اپنا
آدمی سانس تو لے سکتا ہے آسانی سے
کبھی کبھی تو ہنسی آتی ہے
یہ دنیا کیسی دنیا ہے


Post a Comment

0 Comments