Main Menu Bar

مجاہد آزادی چندر شیکھر آزاد جنھیں برطانوی پولیس کبھی زندہ نہ پکڑ سکی

 مجاہد آزادی چندر شیکھر آزاد جنھیں برطانوی پولیس کبھی زندہ نہ پکڑ سکی

یہ سنہ 1925 کی بات ہے۔ اشفاق اللہ ، ستیندر ناتھ بخشی اور راجندر لاہری ’ایٹ ڈاؤن‘ نمبر کی مسافر ریل گاڑی کی دوسرے درجے والی کوچ میں سوار ہوئے۔ انھیں یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ ٹرین کو روکنے کے لیے ایک خاص مقام پر زنجیر کھینچیں۔ جبکہ رام پرشاد بسمل، کیشو چکرورتی، مراری لال، مکوندی لال، بنواری لال، منمتھ ناتھ گپت اور چندر شیکھر آزاد اسی ٹرین کے تھرڈ کلاس ڈبے میں سوار تھے۔ ان میں سے کچھ کو گارڈز اور ڈرائیوروں کو پکڑنے کا کام سونپا گیا تھا، جبکہ باقیوں کو گاڑی کے دونوں اطراف کی حفاظت اور خزانے لوٹنے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔
جس وقت گاڑی کی زنجیر کھینچی گئی چاروں طرف اندھیرا ہو چکا تھا۔ گارڈ اور ڈرائیوروں کو پیٹ کے بل لٹا دیا گیا اور تجوری کو ٹرین سے نیچے گرا دیا گیا۔ تجوری خاصی وزنی اور مضبوط تھی۔ ہتھوڑے اور چھینی سے اسے توڑا جانے لگا۔
اشفاق اللہ کے ہتھوڑے کی ضرب سے یہ مضبوط تجوری بھی اندر کا خزانہ اگلنے پر مجبور ہو گئی۔ تجوری میں ڈھیر ساری نقدی تھی۔ اسے ایک گٹھری میں باندھا گیا اور انقلابیوں نے پیدل ہی لکھنؤ کا راستہ لیا۔
شہر میں داخل ہوتے ہی خزانے کو ایک محفوظ جگہ پر رکھ دیا گیا۔ ان لوگوں کے جو ٹھکانے پہلے سے طے تھے، وہ وہاں چلے گئے۔ لیکن چندر شیکھر آزاد نے وہ رات ایک پارک میں بیٹھے گزاری۔
اس ٹرین ڈکیتی کی وجہ سے برطانوی حکومت بوکھلا گئی۔ محکمہ انٹلیجنس کو چوکس کر دیا گيا اور ان تمام لوگوں پر نظر رکھنا شروع کر دی گئی جن پر انقلابی ہونے کا شبہ ہو سکتا تھا۔
47 دنوں کے بعد 26 ستمبر سنہ 1925 کو اتر پردیش کے مختلف مقامات پر چھاپے مارے گئے اور گرفتاریاں ہوئیں۔ گرفتار کیے جانے والوں میں سے چار کو پھانسی دی گئی، چار افراد کو کالا پانی میں عمر قید کی سزا اور 17 افراد کو طویل قید کی سزا سنائی گئی۔ صرف چندرشیکھر آزاد اور کندن لال کو پولیس نے نہیں پکڑ سکی، بلکہ برطانوی پولیس کبھی بھی آزاد کو زندہ نہیں پکڑ سکی۔
آزاد نے بھگت سنگھ کو گرفتاری سے بچایا
آزاد کے بارے میں مشہور تھا کہ 'ان کا نشانہ بہت زبردست تھا'۔ 17 دسمبر سنہ 1927 کو ڈی ایس پی جان سائونڈرز کو مارنے کے بعد بھگت سنگھ اور راج گورو ڈی اے وی کالج کے ہاسٹل کی طرف بھاگ رہے تھے اور پولیس حولدار چانن سنگھ ان کے پیچھے تھے۔ چندر شیکھر آزاد ہاسٹل سے پورا منظر دیکھ رہے تھے۔ انھوں نے محسوس کیا کہ بھگت سنگھ اور راج گرو نے اپنی پستول ساؤنڈرز پر خالی کردی تھی اور ان کے پاس کوئی گولی نہیں بچی تھی۔
چندر شیکھر آزاد کے ساتھی شیو ورما اپنی کتاب 'رمینینسز آف فیلو ریوولوشنریز' یعنی 'ساتھی انقلابیوں کی یادیں' میں لکھتے ہیں: 'یہ زندگی اور موت کی دوڑ تھی اور دونوں کے بیچ کا فاصلہ آہستہ آہستہ کم ہوتا جارہا تھا۔ چانن سنگھ کے ہاتھ بھگت سنگھ کو بس پکڑنے ہی والے تھے، لیکن اس سے پہلے کہ چانن سنگھ ایسا کرتے گولی ان کی ران کے پار نکل گئی۔ وہ گر پڑے اور بعد میں بہت زیادہ خون بہنے کی وجہ سے ان کی موت ہوگئی۔ یہ گولی چندر شیکھر آزاد نے اپنی ماؤزر پستول سے چلائی تھی۔
آزاد کی نہرو سے ملاقات
سنہ 1931 میں چندرشیکھر آزاد نے جواہر لعل نہرو سے آنند بھون میں ایک خفیہ ملاقات کی۔
جواہر لعل نہرو نے اپنی سوانح عمری میں لکھا: 'میرے والد کی موت کے بعد ایک اجنبی میرے گھر مجھ سے ملنے آیا۔ مجھے بتایا گیا کہ اس کا نام چندرشیکھر آزاد ہے۔ میں نے اس سے پہلے اسے نہیں دیکھا تھا لیکن میں نے اس کا نام دس سال قبل سنا تھا جب وہ عدم تعاون کی تحریک کے دوران جیل گیا تھا۔ وہ جاننا چاہتا تھا کہ اگر حکومت اور کانگریس کے مابین کوئی سمجھوتہ ہوجاتا ہے تو کیا اس جیسے لوگ پر امن طریقے سے زندگی گزار سکیں گے؟ ان کا خیال تھا کہ آزادی صرف دہشت گردی کے طریقوں سے نہیں جیتی جاسکتی اور نہ ہی آزادی صرف پر امن ذرائع سے حاصل ہوسکتی ہے۔
آزادی پسند اور ہندی ادب کے عالم یشپال اس وقت الہ آباد میں تھے۔ انھوں نے اپنی سوانح 'سنہاولوکن' میں لکھا کہ 'آزاد اس ملاقات سے خوش نہیں تھے، کیونکہ نہرو نے نہ صرف دہشت گردی کی افادیت پر شبہ کیا تھا بلکہ ایچ ایس آر اے تنظیم کے طریقہ کار پر بھی سوال اٹھایا تھا۔ تاہم بعد میں میں نے نہرو سے ملاقات کی تھی اور وہ میرے اور آزاد کے روس جانے کا خرچ اٹھانے پر راضی تھے۔
جب گورے افسر نے پوچھا 'ہاؤ آر یو؟'
آزاد کی یہ عادت تھی کہ جب بھی ان کا کوئی ساتھی پکڑا جاتا جو انھیں یا ان کی رہائش کی جگہ جانتا ہو تو وہ فورا ہی اپنی رہائش گاہ اور ضرورت پڑنے پر اپنا شہر بدل لیتے تھے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ بہت ساری مخبری کے باوجود پولیس برسوں تک ان کو پکڑ نہیں سکی۔
نہرو سے ملاقات کے قریباً ایک ہفتہ بعد 27 فروری سنہ 1931 کو الہ آباد کے الفریڈ پارک میں آزاد اپنے ساتھی سکھدیو راج کے ساتھ بیٹھے تھے کہ سامنے والی سڑک پر ایک موٹر کار رکی، جس میں سے ایک انگریز افسر ناٹ باور اور دو سپاہی سفید کپڑوں میں اترے۔
سکھدیو راج لکھتے ہیں: 'جیسے ہی موٹر کھڑی ہوئی ہمیں شک ہو گیا۔ گورا افسر ہاتھ میں پستول لے کر سیدھا ہماری طرف آیا اور پستول دکھا کر انگریزی میں ہم سے پوچھا، 'تم لوگ کون ہو اور یہاں کیا کر رہے ہو؟' آزاد کا ہاتھ اپنی پستول پر تھا اور میرا میری پستول پر تھا۔ ہم نے اس کے سوال کا جواب گولی سے دیا۔ لیکن گورے افسر کا پستول پہلے چل گیا اور اس کی گولی آزاد کی ران پر لگی جبکہ آزاد کی گولی اس افسر کے کاندھے میں لگی۔ دونوں طرف سے گولیاں چل رہی تھیں۔ انگریز افسر نے پیچھے بھاگ کر مولسری کے درخت کی آڑ لی۔ اس کے سپاہی چھلانگ لگا کر نالے میں چھپ گئے اور ہم نے جامن کے درخت کی آڑ لے لی۔ لڑائی ایک لمحہ کے لئے رک گئی۔ تب آزاد نے مجھے بتایا کہ گولی اس کی ران میں لگی ہے۔ اس نے کہا ’تم یہاں سے نکل جاؤ۔'
سکھ دیو نے مزید لکھا: 'آزاد کے حکم پر میں نے فرار ہونے کا راستہ دیکھا۔ بائیں طرف ایک سمر ہاؤس تھا۔ درخت کی اوٹ سے نکل کر میں سمر ہاؤس کی طرف بھاگا۔ مجھ پر کئی گولیاں برسائی گئیں لیکن مجھے ایک بھی گولی نہیں لگی۔ جب میں الفریڈ پارک کے وسط میں سڑک کے پار آیا تو میں نے دیکھا کہ ایک لڑکا سائیکل پر جارہا ہے۔ میں نے اسے پستول دکھایا اور اس کی سائیکل چھین لی۔ وہاں سے میں سائیکل پر سوار چاند پریس پہنچا۔ چاند کے ایڈیٹر رام رکھ سنگھ سہگل ہمارے حامیوں میں شامل تھے۔ انھوں نے مجھے فوری طور پر حاضری کے رجسٹر پر دستخط کرنے اور اپنی سیٹ پر بیٹھ جانے کے لیے کہا۔'
چندر شیکھر پر پانچ ہزار روپے کا انعام
چندر شیکھر پر مستند کتاب 'امر شہید چندر شیکھر آزاد' لکھنے والے وشوناتھ واشمپاین لکھتے ہیں: 'پہلے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ ویشیشور سنگھ نے ایک ایسے شخص کو دیکھا جس پر انھیں چندر شیکھر آزاد ہونے کا شبہ ہوا۔ آزاد کاکوری اور دیگر مقدمات میں مطلوب تھے اور ان پر پانچ ہزار روپے کا انعام تھا۔ وشیشور سنگھ اور سی آئی ڈی کے قانونی مشیر ڈالچند کور اپنے اردلی سرنام سنگھ کے ساتھ یہ دیکھنے گئے کہ یہ وہی آدمی ہے جس پر آزاد ہونے کا شبہ ہے۔
'انھوں نے دیکھا کہ تھارن ہل روڈ کارنر سے پبلک لائبریری کی طرف جو راستہ جاتا ہے اس پر وہ دونوں بیٹھے تھے۔ جب انھیں یقین ہو گیا کہ وہ آزاد ہی ہیں تو انھوں نے اردلی سرنام سنگھ کو ناٹ باور کو بلانے بھیجا جو قریبی پارک روڈ پر رہتے تھے۔
بعد میں ناٹ باور نے ایک اخباری بیان میں کہا تھا: 'مجھے ٹھاکر وشیشور سنگھ کا پیغام ملا کہ اس نے الفریڈ پارک میں ایک ایسے شخص کو دیکھا ہے جس کا حلیہ چندر شیکھر آزاد سے ملتا ہے۔ میں کانسٹیبل محمد زمان اور گووند سنگھ کو اپنے ساتھ لے گیا۔ میں نے کار کھڑی کی اور ان کی طرف بڑھا۔ تقریبا دس گز کے فاصلے سے میں نے اس سے پوچھا کہ وہ کون ہے؟ جواب میں اس نے پستول نکال کر مجھ پر گولی چلا دی۔ 'میری پستول پہلے سے ہی تیار تھی۔ میں نے بھی اس پر گولی چلادی۔ جب میں میگزین بھر رہا تھا تو آزاد نے مجھ پر فائرنگ کردی جس کے باعث میگزین میرے بائیں ہاتھ سے نیچے گر گئی۔ پھر میں ایک درخت کی طرف دوڑا۔ اسی دوران وشیشور سنگھ رینگ کر جھاڑی میں پہنچا۔ وہاں سے اس نے آزاد پر گولی چلا دی۔ جواب میں آزاد نے بھی فائر کیا، گولی وشیشور سنگھ کے جبڑے میں لگی۔‘
'جب بھی میں دکھائی دیتا آزاد مجھ پر فائرنگ کرتا۔ آخر کار وہ پیٹھ کے بل گر گیا۔ اسی دوران ایک کانسٹیبل شاٹ گن لے کر آیا جو بھری ہوئی تھی۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ آزاد مر گیا ہے یا بہانے بنا رہا ہے۔ میں نے کانسٹیبل سے آزاد کے پاؤں کا نشانہ لینے کو کہا۔ جب میں فائرنگ کے بعد وہاں گیا تو آزاد مر چکا تھا اور اس کا ایک ساتھی بھاگ گیا تھا۔
جب آزاد کو گولی ماری گئی، وہ اس وقت بھٹوک ناتھ اگروال الہ آباد یونیورسٹی میں بی ایس سی کے طالب علم تھے اور ہندو ہاسٹل میں رہتے تھے۔
بعد میں انھوں نے لکھا کہ جب وہ 27 فروری کی صبح ہندو بورڈنگ ہاؤس کے گیٹ پر پہنچے تو انھوں نے فائرنگ کی آواز سنی۔ یونیورسٹی کے طلبا کا ایک بہت بڑا ہجوم تھوڑی دیر میں وہاں جمع ہوگیا تھا۔ پولیس، کیپٹن اور میجرز بھی وہاں پہنچ چکے تھے۔ انھوں نے طلبہ کو منتشر ہونے کے لیے کہا لیکن کوئی وہاں سے نہیں ہلا۔ کلکٹر مم فورڈ بھی وہاں موجود تھے۔ کیپٹن میجرز نے بھیڑ کو منتشر کرنے کے لیے فائرنگ کرنے کی اجازت طلب کی، لیکن کلکٹر نے اجازت نہیں دی۔ اسی دوران مجھے معلوم ہوا کہ آزاد جان کی بازی ہار چکے تھے۔
ناٹ باور کی کار میں تین سوراخ
اسی دوران جب ایس پی میجر کو فائرنگ کی اطلاع ملی تو انھوں نے آرمڈ ریزرو پولیس کے اہلکاروں کو الفریڈ پارک بھیجا۔ لیکن جب یہ لوگ وہاں پہنچے تو لڑائی ختم ہوچکی تھی۔ جاتے ہوئے ناٹ باور نے ہدایت دی کہ چندر شیکھر آزاد کی لاش کی تلاشی لی جائے اور پھر پوسٹ مارٹم کے لیے روانہ کیا جائے اور وشیشور سنگھ کو فوری طور پر ہسپتال منتقل کیا جائے۔
آزاد کی لاش کی تلاشی پر ان کے پاس سے 448 روپے اور 16 گولیاں ملیں۔ یشپال نے اپنی سوانح عمری میں لکھا ہے کہ 'شاید آزاد کے پاس وہی رقم تھی جو نہرو نے دی تھی'۔
دونوں طرف کے لوگ جن درختوں کے پیچھے چھپے تھے ان پر گولیوں کے نشانات تھے۔ ناٹ باور کے پیچھے کھڑی کار میں بھی گولیوں کے تین سوراخ تھے۔
آزاد کی لاش کا پوسٹ مارٹم سول سرجن لیفٹیننٹ کرنل ٹاؤنسنڈ نے کیا تھا۔ اس وقت ، دو مجسٹریٹ خان صاحب رحمان بخش قادری اور مہیندر پال سنگھ وہاں موجود تھے۔
آزاد کے پیر کے نچلے حصے میں گولیوں کے دو زخم تھے۔ ان کی ٹیبیا بون بھی فریکچر ہوئی تھی۔
ایک گولی دائیں ران سے نکل گئی تھی۔ ایک گولی سر کی دائیں طرف پیرلیٹل ہون کو چھیدتے ہوئے دماغ میں داخل ہوگئی اور دوسری گولی دائیں کندھے میں سوراخ کرتے ہوئے دائیں پھیپھڑوں میں رک گئی تھی۔
وشوناتھ ویشمپاین لکھتے ہیں: 'چونکہ آزاد کا جسم بھاری تھا لہذا اسے اسٹریچر پر نہیں رکھا جاسکتا تھا۔ چونکہ چندرشیکھر آزاد ایک برہمن تھے لہذا پولیس لائن سے برہمن رنگروٹ کو طلب کیا گیا تھا اور ان کی لاش اٹھا کر لاری میں رکھی گئی تھی۔
پرشوتم داس ٹنڈن اور کملا نہرو آخری رسومات پر پہنچے لیکن اس وقت تک آزاد کا جسم نذر آتش کر دیا گيا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ کملا نہرو آزاد کو بھائی سمجھتی تھیں
آزاد کی راکھ جمع کر کے ان کے رشتہ دار شیو ونیاک مشرا شہر لائے۔ کھدر بھنڈار سے ایک جلوس نکالا گیا۔ لکڑی کے تختے پر کالی چادر رکھی تھی ، جس پر راکھ بچھائی گئی۔ شہر میں گھومتا ہوا جلوس پُرشوتم داس ٹنڈن پارک پہنچا۔
تابوت پر شہر کے کئی مقامات پر پھول برسائے گئے۔ اس دن پورے شہر میں ہڑتال رہی۔
وشوناتھ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں: 'سی آئی ڈی سپرنٹنڈنٹ نے اعتراف کیا کہ انھوں نے آزاد جیسے بہت کم شوٹر دیکھے ہیں۔ خاص طور پر اس وقت جب ان پر تین راؤنڈ فائر کیے گئے تھے۔ اگر پہلی گولی آزاد کی ران پر نہ لگتی تو پولیس کے لیے بہت مشکل ہو جاتی کیونکہ ناٹ کا ہاتھ پہلے ہی بیکار ہو چکا تھا۔ ناٹ باور کے ریٹائر ہونے کے بعد حکومت نے انھیں آزاد کا پستول تحفے میں دیا اور وہ اسے اپنے ساتھ انگلینڈ لے گئے۔
بعدازاں الہ آباد کے کمشنر نے جو بعد میں لکھنؤ یونیورسٹی کے چانسلر بنے، باور کو پستول واپس کرنے کے لیے ایک خط لکھا لیکن باور نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔
بعد میں لندن میں انڈین ہائی کمیشن کی کوشش کے بعد باور نے اس شرط پر پستول واپس کرنے پر اتفاق ظاہر کیا کہ حکومت ہند ان سے تحریری درخواست کرے۔
ان کی شرط مان لی گئی اور آزاد کا کولٹ پستول سنہ 1972 میں انڈیا واپس آگیا اور 27 فروری سنہ 1973 کو شچیندر ناتھ بخشی کی زیرصدارت ایک تقریب کے بعد اسے لکھنؤ میوزیم میں رکھا گیا۔
کچھ برسوں کے بعد جب الہ آباد میوزیم تیار ہوا اسے وہاں کے ایک خاص کمرے میں لایا گیا۔
جس پیڑ کے نیچے آزاد مرے ہر روز لوگوں کا ہجوم درخت کے نیچے آنا شروع ہو گیا۔ لوگوں نے وہاں پھول چڑھانا اور دیے روشن کرنا شروع کردیا۔ برطانوی حکومت نے اس درخت کو جڑوں سے کاٹ کر اس کا نام و نشان مٹادیا اور وہاں زمین کو ہموار کر دیا گيا۔ اس کی لکڑی کو اٹھا کر کہیں اور پھینکوا دیا گیا۔
بعد میں آزاد کے چاہنے والوں نے اسی جگہ پر جامن کا دوسرا درخت لگایا اور جس مولسری کے درخت کے پیچھے ناٹ نے پناہ لے رکھی تھی اس پر آزاد کی گولیوں کے نشان موجود تھے۔
آزاد کی راکھ کا ایک حصہ سوشلسٹ رہنما آچاریہ نریندر دیو بھی لے گئے تھے۔ اور ودیا پیٹھ میں جہاں آزاد کی یادگار کا پتھر رکھا گیا تھا وہاں اسے چھڑک دیا گیا۔
آزاد کی موت کے ساتھ ہی ہندوستان سوشلسٹ ریپبلکن آرمی (ایچ آر ایس اے) ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی۔
ایک ماہ کے اندر 23 مارچ سنہ 1931 کو بھگت سنگھ، راجگورو اور سکھدیو کو بھی پھانسی دے دی گئی۔ اتنے کم وقت میں اتنے سارے رہنماؤں کی موت سے ایچ آر ایس اے کو بہت زیادہ صدمہ پہنچا جس سے وہ کبھی بھی نکل نہیں سکی۔
ریحان فضل : بی بی سی ہندی



Post a Comment

0 Comments