Main Menu Bar

کلیم عاجز نے پٹنہ یونیورسٹی سے بی اے کیا اور گولڈ میڈل حاصل کیا۔

 دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ

تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
آج اس شعر کے خالق کلیم عاجز کی چھٹی برسی ہے.
وہ 1920 میں موضع تلہاڑہ، نالندہ، بہار میں پیدا ہوئے اور 14 فروری 2015 کو ہزاری باغ، جھارکھنڈ میں وفات پائی.
کلیم عاجز نے پٹنہ یونیورسٹی سے بی اے کیا اور گولڈ میڈل حاصل کیا۔ پھر اسی یونیورسٹی سے ایم اے اردو اور 1956ء میں پی ایچ ڈی کی۔ انہوں نے "بہار میں اردو ادب کا ارتقا" کے عنوان سے مقالہ لکھا جو بعد میں کتابی شکل میں شائع بھی ہوا۔
کلیم عاجز اپنی ہی یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں لیکچرر ہوئے اور بحیثیت پروفیسر ریٹائر ہوئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ حکومت بہار کی اردو مشاورتی کمیٹی (Urdu Advisory Committee) کے صدر مقرر ہوئے اور تادم حیات اس عہدے پر باقی رہے۔
کلیم عاجز نے اپنی پہلی غزل 17 برس کی عمر میں لکھی اور 1949ء سے مشاعروں میں شرکت شروع کی۔ انکا پہلا مجموعہ 1976ء میں شائع ہوا جس کی تقریب رونمائی اس وقت کے صدر جمہوریہ ہند فخر الدین علی احمد کے ہاتھوں وگیان بھون میں ہوئی۔ اس کے بعد ان کے متعدد مجموعے منظر عام پر آئے جن میں "جب فصل بہاراں آئی تھی"، "وہ جو شاعری کا سبب ہوا"، "جب فصل بہار آئی" اور "جہاں خوشبو ہی خوشبو تھی" قابل ذکر ہیں۔ انہوں نے کئی ملکوں میں مشاعروں میں شرکت کی. حکومت ہند نے ان کی شعری خدمات کے اعتراف میں 1989ء میں پدم شری اعزاز سے نوازا۔
کلیم عاجز کے کچھ اشعار
تم گل تھے ہم نکھار ابھی کل کی بات ہے
ہم سے تھی سب بہار ابھی کل کی بات ہے
اس قدر سوز کہاں اور کسی ساز میں ہے
کون یہ نغمہ سرا میرؔ کے انداز میں ہے
جہاں غم ملا اٹھایا پھر اسے غزل میں ڈھالا
یہی درد سر خریدا یہی روگ ہم نے پالا
غزلیں کب کہتا ہوں یارو، غم کو لوریاں دیتا ہوں
کچھ رات گئے سوجاتا ہوں جب غم کو نیند آجاتی ہے
کوئی بزم ہو کوئی انجمن یہ شعار اپنا قدیم ہے
جہاں روشنی کی کمی ملی وہیں اک چراغ جلا دیا
قتل کرنے ہی کا اک سلیقہ سہی
کچھ تو مشہور ہونے کو فن چاہیے
آج کل سب کا بدلا ہوا بھیس ہے
شیخ ڈھونڈو اگر برہمن چاہیے
دن ایک ستم، ایک ستم رات کرو ہو
وہ دوست ہو، دشمن کو بھی تم مات کرو ہو
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
مزا یہ ہے لئے بھی جا رہے ہیں جانبِ مقتل
تسلی بھی دیۓ جاتے ہیں سمجھاۓ بھی جاتے ہیں
ہر اک ظلم کی اک الگ نوعیت تھی
کسے بھول جاتے کسے یاد کرتے
خدا جانے کس کس پہ الزام آتا
اگر ہم بیاں اپنی روداد کرتے


Post a Comment

0 Comments