Main Menu Bar

آج غالب کی 152 ویں برسی ہے

 آج غالب کی 152 ویں برسی ہے

ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور
آہ کو چاہیئے اک عمر اثر ہوتے تک
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہوتے تک
بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
درد منت کش دوا نہ ہوا
میں نہ اچھا ہوا برا نہ ہوا
عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا
کعبہ کس منہ سے جاؤگے غالبؔ
شرم تم کو مگر نہیں آتی
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیر نیم کش کو
یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا
کہاں مے خانہ کا دروازہ غالبؔ اور کہاں واعظ
پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے
نہ تھا کچھہ تو خدا تھا کچھہ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھہ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اسی کو دیکھہ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے
عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
‏⁧‫ریختے کے تمہیں استاد نہیں ہو غالبؔ
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میرؔ بھی تھا
ان کے دیکھے سے جو آجاتی ہے منہ پر رونق
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے
رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھہ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے
رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھہ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں
اک کھیل ہے اورنگ سلیماں میرے نزدیک
اک بات ہے اعجاز مسیحا میرے آگے
تماشا کہ اے محو آئینہ داری
تجھے کس تمنا سے ہم دیکھتے ہیں
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالب صریر خامہ نوائے سروش ہے
جی میں ہی کچھہ نہیں ہے ہمارے وگرنہ ہم
سر جائے یا رہے، نہ رہیں پر کہے بغیر
ہر چند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
تجھ سے قسمت میں مری صورت قفل ابجد
تھا لکھا بات کے بنتے ہی جدا ہو جانا
وحشت و شیفتہ اب مرثیہ کہویں شاید
مر گیا غالبِ آشُفتہ نوا کہتے ہیں
تیشے بغیر مر نہ سکا کوہکن اسد
سر گشتہ خمارِ رسوم و قیود تھَا
پرتوِ خور سے ہے شبنم کو فنا کی تعلیم
میں بھی ہوں ایک عنایت کی نظر ہونے تک
ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب
ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا
ہَوَس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا
نہ ہو مرنا تو جینے کا مزا کیا
ھم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
وفا کیسی کہاں کا عشق جب سر پھوڑنا ٹھہرا
تو پھر اے سنگ دل تیرا ہی سنگِ آستاں کیوں ہو
ہاں بھلا کر ترا بھلا ہو گا
اور درویش کی صدا کیا ہے
قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھہ رکھوں
میں جانتا ھوں جو وہ لکھیں گے جواب میں
جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یوں ہے کہ حق ادا نہ ہوا
ہستی کے مت فریب میں آجائیو اسد
عالم تمام حلقہ دام خیال ہے
دام ہر موج میں ہے حلقہ صد کام نہنگ
دیکھیے کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک
قطرے میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزو میں کل
کھیل لڑکوں کا ہوا دیدہ بینا نہ ہوا
قید میں یعقوب نے لی گو نہ یوسف کی خبر
لیکن آنکھیں روزن دیوار زنداں ہو گئیں
تم جانو تم کو غیر سے جو رسم و راہ ہو
ہم کو بھی پوچھتے رہو تو کیا گناہ ہو
کاوے کاوے سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا
ہوئی مدت کہ غالب مر گیا پر یاد آتا ہے
وہ ہر اک بات پر کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا
ﮨﻢ ﮐﮩﺎﮞ ﮐﮯ ﺩﺍﻧﺎ ﺗﮭﮯ ﮐﺲ ﮨﻨﺮ ﻣﯿﮟ ﯾﮑﺘﺎ ﺗﮭﮯ
ﺑﮯ ﺳﺒﺐ ﮨﻮﺍ ﻏﺎﻟﺐ ﺩﺷﻤﻦ ﺁﺳﻤﺎﮞ ﺍﭘﻨﺎ
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے تمہیں کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے
گو ہاتھ میں جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر و مینا میرے آگے
ثابت ہوا ہے گردن مینا پہ خون خلق
لرزے ہے موج مے تیری رفتار دیکھ کر
اک نو بہارِ ناز کو تاکے ہے پھر نگاہ
چہرہ فروغ مے سے گلستاں کئے ہوئے
اے ساکنانِ کوچہِ دلدار دیکھنا
تم کو کہیں جو غالبِ آشفتہ سر ملے
یہ مسائل تصوف یہ ترا بیان غالبؔ
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
آئے ہے بیکسئ عشق پہ مجھے رونا غالب
کس کے گھر جائےگا سیلاب بلا میرے بعد
یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے
ہوئے تم دوست جس کے، دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
سیکھے ہیں مہ رخوں کیلئے ہم مصوری
تقریب کچھ تو بہر ملاقات چاہئیے
اک کھیل ہے اورنگ سلیماں میرے نزدیک
اک بات ہے اعجاز مسیحا میرے آگے
آتے ہیں غیب سے یہ مضامین خیال میں
غالب صریر خامہ نوائے سروش ہے
ہر چند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
تیشے بغیر مر نہ سکا کوہکن اسد
سر گشتہ خمارِ رسوم و قیود تھا
بوئے گل،نالہء دل،دود چراغ محفل جو تیری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا
کرتا ہے بسکہ باغ میں تو بے حجابیاں
آنے لگی ہے نکہت گل سے حیا مجھے
دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن
بیٹھے رہیں تصورِ جاناں کئے ہوئے
غنچہ نا شگفتہ کو دور سے مت دکھا کہ یوں
بو سے کو پوچھتا ہوں میں منہ سے مجھے بتا کہ یوں
رات کے وقت مے پئے ساتھ رقیب کو لیے
آۓ وہ یاں خدا کرے پر نہ کرے خدا کہ یوں
عشق سے طبعیت نے زیست کا مزہ پایا
درد کی دوا پائی درد لا دوا پایا
میں نے کہا کہ بزم ناز چاہیے، غیر سے تہی
سن کے ستم ظریف نے مجھ کو اٹھا دیا کہ یوں
اسلم ملک



Post a Comment

0 Comments