Main Menu Bar

آج ادا جعفری کی چھٹی برسی ہے.

 ہونٹوں پہ کبھی ان کے مرا نام ہی آئے

آئے تو سہی بر سرِ الزام ہی آئے
آج ادا جعفری کی چھٹی برسی ہے.
وہ 22 اگست 1924کو بدایوں میں پیدا ہوئیں اور12مارچ 2015 کو کراچی میں وفات پائی۔
ادا جعفری کا اصل نام عزیز جہاں تھا، تیرہ برس کی عمر میں شاعری شروع کی. اختر شیرانی اور اثر لکھنوی سے اصلاح لی. پہلے ادا بدایونی کہلاتی تھیں. نورالحسن جعفری سے شادی کے بعد ادا جعفری کہلائیں.
ادا جعفری کے شعری مجموعوں میں ’’ میں ساز ڈھونڈتی رہی‘‘ ،’’ شہردرد‘‘، ’’غزالاں تم تو واقف ہو‘‘ ،’’ سازسخن بہانہ ہے‘‘ اور کلیات ’’موسم موسم ‘‘شامل ہیں ۔
خود نوشت سوانح عمری ’’جو رہی سو بے خبری رہی ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی۔
ان کے کچھ شعر
ہمارے شہر کے لوگوں کا اب احوال اتنا ہے
کبھی اخبار پڑھ لینا کبھی اخبار ہو جانا
بس ایک بار منایا تھا جشن محرومی
پھر اس کے بعد کوئی ابتلا نہیں آئی
آ دیکھہ کہ میرے آنسوؤں میں
یہ کس کا جمال آ گیا ہے
میں دشت زندگی میں کھلے سر نہیں رہی
اک حرف آرزو کی ردا مل گئی مجھے
میں بے قرار وخستہ تن
بس اک شرار عشق، میرا پیرہن
ہمیں خود سے بھی ملنا تھا، کسی ہم راز سے پہلے
کوئی آواز سننا تھی، کسی آواز سے پہلے
ہونٹوں پہ کبھی ان کے مرا نام ہی آئے
آئے تو سہی بر سر الزام ہی آئے
یہ جو بے ساختہ پن ہے یہی تو اصل راحت ہے
پروں کو دیکھنا واجب نہیں پرواز سے پہلے
ابھی تو خواب چہرے سب دعا کی رہ گزر میں تھے
کہانی ختم کیسے ہو گئی آغاز سے پہلے
مزاج و مرتبۂ چشم نم کو پہچانے
جو تجھہ کو دیکھہ کے آئے وہ ہم کو پہچانے
وہ تشنگی تھی کہ شبنم کو ہونٹ ترسے ہیں
وہ آب ہوں کہ مقید گہر گہر میں رہوں
بے نوا ہیں کہ تجھے صوت و نوا بھی دی ہے
جس نے دل توڑ دیئے اس کی دعا بھی دی ہے




Post a Comment

0 Comments