Main Menu Bar

جب پورے گاؤں میں کسی کے پاس سائیکل نہیں تھی تو بابے دارے کے پاس سائیکل تھی۔پگ کو کلف لگا کے سائیکل پر بیٹھتا اور روزانہ سارے گاؤں کا چکر لگاتا۔اسی

جب پورے گاؤں میں کسی کے پاس سائیکل نہیں تھی تو بابے دارے کے پاس سائیکل تھی۔پگ کو کلف لگا کے سائیکل پر بیٹھتا اور روزانہ سارے گاؤں کا چکر لگاتا۔اسی طرح کبھی قریبی دیہاتوں میں دھاک بٹھانے چلا جاتا۔اگر کبھی کوئی مہمان آجاتے تو بہانے بہانے سے دوسری باتوں کے درمیان سائیکل کی باتیں چھیڑ لیتا اور آنے والے مہمانوں کو سائیکل کے وہ وہ خواص بتاتا کہ بیچاروں کے پاس صرف احساسِ کمتری کی گنجائش بچتی۔گاؤں کی الہڑ مٹیاروں کے پاس سے گزرتا تو بلاضرورت سائیکل کی گھنٹی بجا کے متوجہ کرنے کی کوشش کرتا۔دل ہی دل میں خوش ہوتا۔اپنی سائیکل کی جان سے بڑھ کر حفاظت کرتا۔روزانہ صفائی کرتا، گراریوں میں تیل دیتا، باپردہ خاتون کی طرح بڑی سی چادر اس پر ڈالتا اور کبھی کسی کو اسکے پاس بھی نہ بھٹکنے دیتا۔رات کو تالا لگا کے سائیکل کوجس کمرے میں رکھتا۔باہر سے اس کمرے کو بھی تالا لگاتا۔مبادا کوئی چور لے اُڑے۔
زمانہ بدلہ۔بابا مزید بابا ہوگیا۔بلکہ شدید بابا ہوگیا۔سائیکل کازمانہ ماضی ہوا۔گاؤں میں لڑکوں کے پاس موٹرسائیکلیں آ گئیں۔ایک آدھ  نے گاڑی بھی خرید لی۔اب لوگ پنڈال میں بیٹھکوں میں بیٹھتے تو چاۓ کی چُسکیوں کیساتھ موٹرسائیکلوں کے ماڈلوں اور رفتار کی باتیں ہوتیں۔اب لوگ اپنی موٹر سائیکلوں کی بھی اسطرح سے حفاظت نہیں کرتے تھے جیسے پرانے زمانے کے بابے سائیکلوں کو جان سے لگا کےرکھتے تھے۔بعض کی موٹرسائیکلیں تو باہر گلی میں ہی کھڑی ہوتیں۔
بابا جس نے اک عمر اپنی سائیکل کی دھاک ودبدبہ بٹھانے میں گزاری تھی،یہ باتیں سُنتا تو اُسے بہت غصہ آتا۔رات کے پچھلے پہر اٹھتا، کیکر کا بڑا سا کانٹا لیتا اور، کسی موٹر سائیکل کے پہیئے میں چبھو دیتا۔پہیہ پنکچر ہو جاتا۔اور بابے کو روحانی خوشی ملتی۔بابے نے تن دہی اور جانفشانی سے اس وقت تک یہ معمول بناۓ رکھا۔جب تک کہ حُکمِ قضا آ نہیں گیا۔
ہماری دعا ہے کہ اللہ ایسے بابوں کو زندگی میں ہی ہدائت نصیب فرماۓ ورنہ  وہ  ہماری نوکریوں کے پہیوں کو پنکچر کرکے روحانی سکون لیتے رہیں گے۔ 

(سُنا ہے ریٹائرمنٹ کی عمر پچپن سال کر رہے ہیں)

(باُنگشتِ خود۔۱۴ جولائی ۲۰۲۰)

Post a Comment

0 Comments