Main Menu Bar

یوم آزادی ؟ کہہ سکتے ہو کہ میں نسبتاً آزاد ہوں

یوم آزادی ؟ 
کہہ سکتے ہو کہ میں نسبتاً آزاد ہوں۔  جی ہاں، نسبتاً آزاد ۔ بہت پہلے یہاں بادشاہ ہوا کرتے تھے۔ میں پھر بھی خوش تھا۔ بادشاہ ساری دولت اور اختیار اپنے ہاتھ میں رکھا کرتا تھا۔ بادشاہ کے بعد اس کی اولاد اقتدار سنبھال لیتی تھی۔ میرا کام تھا کہ اپنے خدا سے دعا مانگوں کے اس  بادشاہ کے مرنے کے بعد کوئی نیک بادشاہ نصیب ہو ہی جائے۔ کبھی میری دعا قبول ہو جاتی تھی اور کبھی نہیں۔ بادشاہ میرے ٹیکس سے ساری عیاشی کیا کرتا تھا۔ 
پھر یونہی ایک دن بادشاہ کو گوروں نے قابو کر لیا۔۔ کچھ پاگل کہنے لگے کہ یہ انگریز ہیں، غیر ہیں، بادشاہ اپنا تھا۔ میرے لیے دونوں برابر تھے۔ دونوں میری دولت پر قابض تھے۔ میری زندگی کے سارے فیصلے وہی کیا کرتے تھے۔ میں تو فقط خوراک اور پانی کے لیے زندگی بسر کر رہا تھا۔ 
انگریز آئے، بڑی تعمیرات ہوئیں، سب کا فیصلہ وہ خود اپنی ضرورت کے لیے کرتے تھے۔ اچانک نصاب تبدیل کر دیے گئے۔ مجھ سے کسی نے نہ پوچھا۔ میں اسی طرح تماشائی کا تماشائی ہی رہا بس خوراک اور پانی کے چکر میں۔  انگریز نے بھی ہم میں سے کچھ افراد کو نوکریاں دیں۔ وہ لوگ میرے نہیں انگریز کے وفادار اور نوکر ہوا کرتے تھے۔ 
پھر سنا کہ انگریز بھی جانے لگا۔ ہم مسلمان آبادی میں کم تھے۔ ہم ہندو اکثریت سے خوفزدہ تھے۔ ویسے اگر مسلمان آبادی میں زیادہ ہوتے تو ہندو خوفزدہ ہوتے۔ یہاں ہر ایک ہر دوسرے سے خوفزدہ ہی ہے۔ خیر انگریز گئے۔ ہمارا ملک علحیدہ ہوگیا۔
 مگر!!!
یہ کیا؟ میں ویسے کا ویسے جانور ہی رہا۔ سرکاری نوکر آج بھی میرے نہیں حکمرانوں کے نوکر ہیں۔ مجھے کوئی اختیار حاصل نہیں۔ میرے دور دراز گاؤں کے مسائل کے لیے بھی دور بیٹھا کوئی سرکاری نوکر فیصلہ کرتا ہے۔ میرے جنگل اور پانی کو مسلسل لوٹا جا رہا ہے۔ آزادی اگر جنگلات کاٹنے کی آزادی کا نام ہے تو وہ لوگ واقعی آزاد ہوئے ہیں۔ چند سال بعد کچھ نئے لوگ کہیں سے آجاتے ہیں کہ ووٹ دو، کوئی نہ کوئی جیت جاتا ہے۔ مجھے ووٹ کا اختیار تو ہے ٹکٹ جاری کرنے کا اختیار دور بیٹھا کوئی خاندان کر رہا ہوتا ہے۔ اب تک باپ کے بعد بیٹا ، بیٹی یا کوئی رشتہ دار فیصلہ کرتا ہے۔ میری تعلیم کا فیصلہ  اجنبی لوگ کرتے ہیں۔  انصاف کا عالم یہ ہے کہ ایک مرلہ زمین کے لیے تیس سال سے جج کو سمجھ نہیں آ رہی۔ وہ ہر مہینہ بلا لیتا ہے۔ 
میں آج بھی خوراک اور پانی کے لیے زندہ ہوں۔ میری زندگی کے فیصلے اجنبی لوگ مجھ سے پوچھے بنا کر ڈالتے ہیں۔ 
ہاں! اب بولنے اور لکھنے کی کچھ آزادی ہے۔ اتنی شاید انگریز کے دور میں بھی تھی۔  اب بھی میرا کچھ نہیں۔ اب بھی ہمارے  مالک کچھ اجنبی ہیں۔ 
سنا ہے کہ لوگ آج بھی بھاگ بھاگ کر اسی انگریز کے ملک میں سکون کی سانس لیتے ہیں ۔۔جس کے یہاں سے جانے پر ہم خوش ہوئے تھے۔ 
کیا میں آزاد ہوں؟ پھر مجھے مبارک دو۔ ابھی تک آزادی کا مزہ نہیں آیا ۔۔ کچھ اختیارات مجھے بھی دو۔ مجھے فرق تو محسوس ہو۔  ویسے میں پہلے جیسا ہی آزاد نہیں؟؟؟














Post a Comment

0 Comments