Main Menu Bar

مجلس ترقی ادب کی مجاوری کا ذکر چھڑا تو سوچا کہ اس ادارے نے ادب کی ترقی کیلئے اب تک کیا، کیا ہے

 مجلس ترقی ادب کی مجاوری کا ذکر چھڑا تو سوچا کہ اس ادارے نے ادب کی ترقی کیلئے اب تک کیا، کیا ہے.

71 برس میں اس نے بس کتابیں اور ایک سہ ماہی رسالہ چھاپا ہے. ترقی ادب کیلئے کسی اور سرگرمی کا علم نہیں ہوسکا.
رسالہ صحیفہ چند سو کی تعداد میں چھپتا ہے اور کتابوں کی سالانہ اوسط ساڑھے پانچ سے زیادہ نہیں. ان میں ایسی درجنوں کتابیں بھی شامل ہیں جو اس ادارے کے دائرے یعنی ادب میں آتی ہی نہیں. مثلاً مادام کیوری، سائنس سب کیلئے، نظریہ اضافت، خلا کی تسخیر، ماہیت امراض، جدید طبیعیات، تاریخ بخارا، بگڑے بچے (نفسیات)، نامور سائینسدان، برصغیر کی موسیقی وغیرہ... حالانکہ ایسی کتابوں کی اشاعت کیلئے ایک اور ادارہ اردو سائینس بورڈ، لاہور میں ہی موجود ہے.
شاعروں کے مجموعے نہیں چھاپے جاتے، لیکن دو بارسوخ اصحاب نے وہ بھی اس ادارے سے چھپوا لئے. پانچ چھ پنجابی کتابیں بھی چھاپی گئیں،جن کی اشاعت پنجابی ادبی بورڈ سے مناسب ہوتی.
سائنسی کتابیں مجلس ترقی ادب نے چھاپیں تو زبان و ادب پر اردو سائینس بورڈ چھاپ رہا ہے.
اردو لغت بورڈ الگ کام کررہا ہے تو لغات کی ذیل میں آنے والی بیسیوں کتابیں ادارہ فروغ قومی زبان ( مقتدرہ قومی زبان ) بھی چھاپ چکا ہے.
دراصل ان اداروں کے متعین مقاصد ہیں ہی نہیں. ان کے سربراہ اپنے مقاصد یا کسی کو خوش کرنے کیلئے ہر طرح کی گنجائش نکال لیتے ہیں.
اردو سائینس بورڈ میں "مردِ ابریشم" تیار ہوتا ہے. یہ ناظمین کی مطلق العنانی کی ایک مثال ہے.
کتابیں شائع بلکہ یوں کہیں reprint کرنا ہی ترقی ادب کا کام ہے تو جتنی کتابیں مجلس ترقی ادب نے 71 سال میں شائع کیں، اتنی تو فکشن ہاؤس دو سال سے کم عرصے میں چھاپ دیتا ہے. زبان و ادب کی یہ خدمت مجلس ترقی ادب سے زیادہ ظہور احمد، راجہ عبدالرحمٰن، امجد سلیم منہاس ، حوری نورانی، فرخ سہیل گوئندی، اور شاہد حمید جیسے کئی لوگ کررہے ہیں.
یہ بھی یاد رکھیں کہ ان ناشرین کی پوری کتاب کی جتنی لاگت ہوتی ہے، مجلس کی کتابوں کے ایک صفحے پر اتنے خرچ ہوجاتے ہیں.
ایک دوسرے کی حدود میں تجاوز کرتے ہوئے یہ ادارے کسی نہ کسی کو نوازنے کیلئے بنائے گئے اور پھر از کار رفتہ بزرگوں کے دارالامان یا ڈرائنگ روم بن گئے.
ایسے ایک ادارے کے سربراہ کیلئے اپنی گاڑی سے اترنا بھی مشکل ہوتا تھا. کسی نے یہ بھی اڑادیا کہ سمن آباد اپنے گھر پہنچ کر گلی کے بچوں سے کہتے ہیں کہ مجھے کھینچ کر نکالو. انہیں پیسے دیتے تھے.
ایک اور بزرگ کی تیماردار مسلسل ساتھ رہتی تھی.
ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ ایسے بزرگوں کو بھاری وظیفہ دے کر فکر معاش سے بے نیاز کیا جاتا اور وہ گھر کی بیٹھک میں مجلس آرائی کرتے لیکن انہیں ایسے ادارے سونپ کر ظلم کیا گیا. ان کی کچھ کرنے کی عمر ہی نہیں تھی. وہ اپنے ذاتی رسالے اور مسودے تو وہاں بیٹھ کر مرتب کرتے رہے، ادارے وہیں کے وہیں رہے. ادارے کے ملازمین سے الگ زیادتی کہ ان کیلئے سربراہی کے عہدے تک پہنچنا ممکن ہی نہیں رہا. انہیں 60 سال کا ہوتے ہی ریٹائر کردیا جاتا ہے.
تحسین فراقی صاحب اچھے آدمی ہیں. تدریس، تحقیق اور اس میں رہنمائی کا طویل تجربہ تھا. ان کے ادارے پنجاب یونیورسٹی کو اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے تھا لیکن نہیں اٹھایا اور وہ کسی طرح ایسے ادارے میں آگئے، جس کے قواعد وضوابط، طریق کار کسی چیز کا انہیں علم نہیں تھا. اس عمر میں نیا کام مشکل ہوتا ہے، سو کچھ خاص نہ کر پائے (نیچے دیکھیے ادارت کامعیار، فہرست مطبوعات کا پہلا صفحہ، مطبوعات، کتب، فہرست، لسٹ قسم کا کوئی لفظ ہی نہیں، افسر کو خوش کیاگیا ہے)
نتیجہ یہ ہوا کہ ان تین چار برسوں میں مجلس ترقی ادب نے جتنی ادب کو ترقی دی، اس سے بہت زیادہ اکیلے محمودالحسن نے صرف فیس بک پر ادب کے فروغ کا کام کر ڈالا.
اب پہلی دفعہ اس ادارے میں کوئی کام کرنے کی عمر والا شخص آیا ہے، جس کا اہل ادب کی اکثریت سے ذاتی تعارف بھی ہے. وہ کسی منظوری کیلئے پیدل بھی سیکریٹریٹ جاسکتا ہے کہ یہ سڑک وہ سیکڑوں بار ناپ چکا ہے. پہلے بزرگ تو سڑک بھی پار نہیں کرسکتے تھے.
توقع کی جاسکتی ہے کہ شاید اس ادارے میں کچھ جان پڑے.
یہ خیال آرائیاں بھی ہورہی ہیں کہ یہ تو فلاں فلاں کی مسند تھی.
تو عزیزان، قائداعظم کے جانشین ہونے کے دعویدار اب چودھری شجاعت اور شہباز شریف ہیں اور مولانا مودودی کی جگہ سراج الحق بیٹھے ہیں. بڑوں کی موت ہمیں بڑا بنادیتی ہے



Post a Comment

0 Comments