Main Menu Bar

غیر ذمہ دار صحافت کے باوجود لاہور سیالکوٹ موٹروے پر ریپ ہونے والی خاتون کی شناخت، مجرموں

 غیر ذمہ دار صحافت کے باوجود لاہور سیالکوٹ موٹروے پر ریپ ہونے والی خاتون کی شناخت، مجرموں کو سزا ملنے کے بعد تک بھی خفیہ رہنا حیران کن ہے.

پہلی مرتبہ اس بات کو یقینی بنایا گیا تھا کہ متاثرہ خاتون کی شناخت کو وِٹنس پروٹیکشن ایکٹ کے سیکشن 14 کے ذریعے مکمل طور پر صیغہ راز میں رکھا جائے اور اس کے لیے ان کا فرضی نام اور فرضی شناختی کارڈ نمبر استعمال کیا گیا. ایف آئی آر سے لے کر طبی معائنے کی رپورٹس اور تمام تر عدالتی کاغذات میں فرضی نام استعمال کیا گیا تھا۔
پاکستان میں اس نوعیت کے زیادہ تر مقدمات میں ملزموں کو سزا ملنے میں بڑی رکاوٹ یہ ہوتی ہے کہ متاثرہ خواتین بدنامی کے خوف سے مقدمات کی پیروی ہی نہیں کرتیں۔
اگرچہ صحافتی ضابطہ اخلاق میں بھی درج ہے اور اعلیٰ عدالتیں بھی باربار یہ تقاضا کرتی رہی ہیں کہ مظلوم عورتوں اور بچوں کی شناخت ظاہر نہ کی جائے لیکن بعض اوقات تو رپورٹر اتنی احتیاط کرتے ہیں کہ سڑک کے حادثے میں ہلاک ہونے والی خاتون کا نام بھی پ، ک وغیرہ لکھ دیتے ہیں اور بعض اوقات اتنی بے احتیاطی کی جاتی ہے کہ کیس کا حوالہ ہی مظلومہ کا نام بن جاتا ہے، بشریٰ کیس، ثمینہ کیس، زینب کیس.
ایک اخبار نے تو حد ہی کردی. بظاہر شناخت چھپاتے ہوئے سرخیوں میں اتنی تفصیل دیتا رہا ہے کہ سارے خاندان کیلئے عذاب بن جائے.
گلی نمبر فلاں محلہ فلاں کے ماسٹر فلاں کی بیٹی" ن"....
پھر بے شمار بے تکی تصاویر، مثلاً وہ بیڈ جس پر ن سے زیادتی کی گئی.
اب دیکھنا یہ ہے کہ موٹر وے کیس والی نظیر آگے بھی چلتی ہے یا نہیں.
یہاں تو مظلومہ کو بد چلن ثابت کرنے کیلئے گواہ پیش کئے جاتے ہیں. وکیل ایسے بیہودہ سوال کرتے ہیں کہ مظلومہ کیس واپس لینے میں ہی عافیت سمجھتی ہے.


Post a Comment

0 Comments