Main Menu Bar

جناب افتخار عارف کو سالگرہ مبارک

 جناب افتخار عارف کو سالگرہ مبارک

💐
ان کے چند اشعار:
مرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کر دے
میں جس مکان میں رہتا ہوں اُس کو گھر کر دے
رحمتِ سیدِ لولاک پہ کامل ایمان
امتِ سیدِ لولاک سے خوف آتا ہے
شکم کی آگ لیے پھر رہی ہے شہر بہ شہر
سگِ زمانہ ہیں ، ہم کیا ہماری ہجرت کیا
سب لوگ اپنے اپنے قبیلوں کے ساتھ تھے
اک میں ہی تھا کہ کوئی بھی لشکر مرا نہ تھا
عذاب یہ بھی کسی اور پر نہیں آیا
کہ ایک عمر چلے اور گھر نہیں آیا
تماشا کرنے والوں کو خبر دی جا چکی ہے
کہ پردہ کب گرے گا کب تماشا ختم ہوگا
کہانی میں نئے کردار شامل ہو گئے ہیں
نہیں معلوم اب کس ڈھب تماشا ختم ہوگا
بہت مشکل زمانوں میں بھی ہم اہل محبت
وفا پر عشق کی بنیاد رکھنا چاہتے ہیں
عجیب ہی تھا مرے دور گمرہی کا رفیق
بچھڑ گیا تو کبھی لوٹ کر نہیں آیا
بیٹیاں باپ کی آنکھوں میں چھپے خواب کو پہچانتی ہیں
اور کوئی دوسرا اس خواب کو پڑھ لے تو برا مانتی ہیں
دعائیں یاد کرا دی گئی تھیں بچپن میں
سو زخم کھاتے رہے اور دعا دیتے گئے ہم
ایک ہم ہی تو نہیں ہیں جو اٹھاتے ہیں سوال
جتنے ہیں خاک بسر شہر کے سب پوچھتے ہیں
ہوا ہے یوں بھی کہ اک عمر اپنے گھر نہ گئے
یہ جانتے تھے کوئی راہ دیکھتا ہوگا
اک خواب ہی تو تھا جو فراموش ہو گیا
اک یاد ہی تو تھی جو بھلا دی گئی تو کیا
جب میرؔ و میرزاؔ کے سخن رائیگاں گئے
اک بے ہنر کی بات نہ سمجھی گئی تو کیا
کہاں کے نام و نسب علم کیا فضیلت کیا
جہان رزق میں توقیر اہل حاجت کیا
کریں تو کس سے کریں نا رسائیوں کا گلہ
سفر تمام ہوا ہم سفر نہیں آیا
مآل عزت سادات عشق دیکھ کے ہم
بدل گئے تو بدلنے پہ اتنی حیرت کیا
میں جس کو ایک عمر سنبھالے پھرا کیا
مٹی بتا رہی ہے وہ پیکر مرا نہ تھا
منہدم ہوتا چلا جاتا ہے دل سال بہ سال
ایسا لگتا ہے گرہ اب کے برس ٹوٹتی ہے
سپاہ شام کے نیزے پہ آفتاب کا سر
کس اہتمام سے پروردگار شب نکلا
ستاروں سے بھرا یہ آسماں کیسا لگے گا
ہمارے بعد تم کو یہ جہاں کیسا لگے گا
تم سے بچھڑ کر زندہ ہیں
جان بہت شرمندہ ہیں
امید و بیم کے محور سے ہٹ کے دیکھتے ہیں
ذرا سی دیر کو دنیا سے کٹ کے دیکھتے ہیں
وہی چراغ بجھا جس کی لو قیامت تھی
اسی پہ ضرب پڑی جو شجر پرانا تھا
وہی فراق کی باتیں وہی حکایت وصل
نئی کتاب کا ایک اک ورق پرانا تھا
وہ کیا منزل جہاں سے راستے آگے نکل جائیں
سو اب پھر اک سفر کا سلسلہ کرنا پڑے گا
اسی کو بات نہ پہنچے جسے پہنچنی ہو
یہ التزام بھی عرضِ ہنر میں رکھا جائے



Post a Comment

0 Comments