Main Menu Bar

کبھی ایسا بھی ہوتا تھا ایف ایس سی میں اسلامیہ کالج

 کبھی ایسا بھی ہوتا تھا

ایف ایس سی میں اسلامیہ کالج سول لائنز میں داخلہ ملا۔لیکن دل پڑوس کے گورنمنٹ کالج میں اٹکا ہوا تھا۔وہاں ایک دوست پڑھتا تھا جو روز وہاں کی رونقوں کا سنا کر دل جلاتا تھا۔ ایک دن کہنے لگا راوی کے لیے اسسٹنٹ ایڈیٹر کے لیے انٹرویو اور ٹیسٹ ہو رہا ہے دو دن بعد۔ میں سخت سڑ گیا اور اسے کہا کہ وہ کسی کو نہ بتائے تو میں یہ سیٹ جیت کر دکھا سکتا ہوں اور پروو کر سکتا ہوں کہ اگر میں سائنس نہ لیتا تو آرٹس میں مجھے گورنمنٹ کالج میں داخلہ مل جانا تھا۔۔۔وہ راضی ہو گیا۔۔سو میں وہاں پہنچ گیا۔کسی نے آئی ڈی وغیرہ چیک نہ کیا اور میں نے بھی یوں ہی کسی سیکشن کا نام بول دیا کہ اس میں پہلے سال کا طالب علم ہوں۔
ٹیسٹ ہوا اور میں نے مضمون نگاری میں مقفیٰ و مسجح نثر کے پہاڑ کھڑے کر دیے۔صابر لودھی میگزین کے انچارج تھے۔انہوں نے ٹیسٹ میں مجھے بھی پاس کر کے انٹرویو کے لیے بلا لیا۔۔
انٹرویو کے لیے جب پینل کے سامنے پیش ہوئے تو وہاں لودھی صاحب ، ایک دو اور بندے اور ایک ایسا بندہ بیٹھا تھا جو بولتا تھا تو اس کی آواز باہر تک گونجتی تھی۔۔۔ بعد میں علم ہوا یہ ڈراما نگار اصغر ندیم سید تھے۔۔
خیر مجھ سے بس ایک ہی سوال ہوا
آپ نے اتنی مشکل نثر لکھی، اس کا کوئی فائدہ؟
میں نے جواب دیا، اس کا ایک فائدہ تو یہ ہے کہ میگزین میں میرے لکھے میں کوئی غلطی ہو جائے گی تو لودھی صاحب کو سمجھ نہیں آئے گی۔۔۔
اس پر جو قہقہہ پڑا اس میں ندیم سید صاحب سے بھی بلند تر آواز لودھی صاحب کی تھی۔۔
مجھے سیلیکٹ کر لیا گیا۔۔۔
اور میں دھڑلے سے دو مہینے راوی کے دفتر میں بیٹھتا رہا اور لودھی صاحب سے سیکھتا بھی رہا۔۔
وہ اتنے معصوم سے تھے کہ ایک دن میرا دل پسیج گیا اور ان کو حقیقت بتا دی۔
عتیق رحمنٰ


Post a Comment

0 Comments