Main Menu Bar

شاعری کے عالمی دن پر میر کے کچھ اشعار

 شاعری کے عالمی دن پر میر کے کچھ اشعار

عشق اک میر بھاری پتھر ہے
کب یہ تجھ ناتواں سے اٹھتا ہے
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا
کن نیندوں اب تو سوتی ہے اے چشم گریہ ناک
مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا
آگ تھے ابتدائے عشق میں ہم
اب جو ہیں خاک انتہا ہے یہ
چشم ہو تو آئینہ خانہ ہے دہر
منہ نظر آتا ہے دیواروں کے بیچ
اب تو جاتے ہیں بت کدے سے میر
پھر ملیں گے اگر خدا لایا
یاد اس کی اتنی خوب نہیں میر باز آ
نادان پھر وہ جی سے بھلایا نہ جائے گا
دکھائی دیئے یوں کہ بے خود کیا
ہمیں آپ سے بھی جدا کر چلے
ہمارے آگے ترا جب کسو نے نام لیا
دل ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام لیا
ہوگا کسی دیوار کے سائے میں پڑا میر
کیا کام محبت سے اس آرام طلب کو
جم گیا خوں کف قاتل پہ ترا میر زبس
ان نے رو رو دیا کل ہاتھ کو دھوتے دھوتے
میر ہم مل کے بہت خوش ہوئے تم سے پیارے
اس خرابے میں مری جان تم آباد رہو
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
شرط سلیقہ ہے ہر اک امر میں
عیب بھی کرنے کو ہنر چاہیئے
مرے سلیقے سے میری نبھی محبت میں
تمام عمر میں ناکامیوں سے کام لیا
نازکی اس کے لب کی کیا کہئے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
اس کے فروغ حسن سے جھمکے ہے سب میں نور
شمع حرم ہو یا ہو دیا سومنات کا
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
میر کے دین و مذہب کو اب پوچھتے کیا ہو ان نے تو
قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھا کب کا ترک اسلام کیا
سرہانے میر کے آہستہ بولو
ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے
پڑھتے پھریں گے گلیوں میں ان ریختوں کو لوگ
مدت رہیں گی یاد یہ باتیں ہماریاں
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی
کبھو جائے گی جو ادھر صبا تو یہ کہیو اس سے کہ بے وفا
مگر ایک میر شکستہ پا تیرے باغِ تازہ میں خار تھا


Post a Comment

0 Comments