Main Menu Bar

آتی جاتی سانس کا عالم نہ پوچھ !

 آتی جاتی سانس کا عالم نہ پوچھ !

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
سیزیرین کرتے ہوئے ہمارے ہاتھ تیزی سے چل رہے ہیں۔ مختلف پرتیں کاٹتے ہوئے، خون روکتے ہوئے، شریانوں کو پکڑ تے ہوئے۔ ہمیں کسی بھی مرحلے کے لئے سوچنا نہیں پڑتا۔ یہ اتنا ہی آسان ہے جیسے گاڑی چلانا، یا پھر چہل قدمی کرنا جہاں قدم آپ سے آپ فاصلہ طے کرتے جاتے ہیں۔
کچھ ہی لمحوں میں وہ سامنے ہو گا وہ جس کے استقبال کے لئے نرس ہاتھ پھیلائے اور ڈاکٹر سٹیتھو سکوپ لگائے انتظار میں کھڑا ہے۔
رحم کاٹتے ہوئے خون کا فوارہ اچھلتا ہے۔اندر ہاتھ ڈال کر دور سے آنے والے کا استقبال کرتے ہوئے ہم اسے باہر نکلنے میں مدد دیتے ہیں۔ ماتھا، آنکھیں، ناک، دہانہ، ٹھوڑی، گردن اور پھر پورا جسم….
نتھنے پچک اور پھول رہے ہیں۔ نہیں معلوم کہ سانس کی چاہت ہے یا زندگی کی… . لیکن سانس ہی تو زندگی ہے اور زندگی سانس۔ مسافر کی ہمت بندھواتے ہوئے ہم کمر سہلاتے ہیں، ہمت میرے بچے، حوصلہ.. تھوڑی سی اور کوشش۔ نرس بچے کے پاؤں پہ نرم ہاتھوں سے ضرب لگاتی ہے تاکہ وہ بے تاب ہو کے منہ کھول دے اور اس کو ساتھی بنا لے جس کے بنا وہ اس دنیا میں کچھ منٹ بھی نہیں جی سکتا۔
منہ کھل چکا ہے، ایک چیخ سنائی دیتی ہے۔ لیجیے نیلی رنگت گلابی میں بدلنا شروع ہو گئی۔ چھاتی دھونکنی کی طرح چل رہی ہے اور نتھنے تیزی سے پچک اور پھول رہے ہیں۔ مسافر نے زندگی سے ہاتھ ملا لیا ہے۔ اب وہ اور زندگی تب تک ایک دوسرے کے ساتھی رہیں گے جب تک سانس کی ڈور سلامت رہے گی۔
ہمیں بھی سانس لینا ہے، گہرا، خوب گہرا!
ہم ماسک کے اندر سے ہی سانس زور سے کھینچتے ہیں اور… اور.. اور اس وقت تک جب تک ہماری سانس ٹوٹنے نہیں لگتی۔
ہم سانس روک لیتے ہیں اور پھولی ہوئی چھاتی ساکت ہو جاتی ہے۔ ہم روکے گئے سانس کو محسوس کرنا چاہتے ہیں ، اپنے وجود کے اندر، بہت اندر!
ہم نے آج تک یہ سوچا ہی نہیں کہ اس کا ہونا کس قدر اہم ہے۔ وہ ہے تو ہم ہیں وہ نہیں تو کچھ بھی نہیں… یہ بے رنگ، بے وزن، ان دیکھی، ان چھوئی ہوا جو دیکھو تو کہیں نہیں ہے لیکن سوچو تو یہیں کہیں ہے، آس پاس، ہر لحظه، ہر وقت!
ہمارا اور اس کا ساتھ اس دنیا میں جنم لینے سے پہلے کا ہے جب ہم بطن مادر میں مہمان ہوئے۔ پہلا سانس ہماری ماں کا دان کیا ہوا تھا۔ اولین تحفہ، جس سے زندگی کا آغاز ہوا۔ ماں گہرے گہرے سانس لیتی اور ان سانسوں میں ہمارے لئے بھی زندگی چھپی ہوتی۔ انہی سانسوں کی بدولت ہم نے دنیا کو دیکھنا، سننا اور سمجھنا شروع کیا۔ ماں یہ زندگی بھری سانس لہو میں بھگو کے ہمیں روانہ کرتی اور ہم جواباً اس سے راحت, سکون، امید اور خوشی نچوڑ کے استعمال شدہ ناکارہ سانس ماں کے حوالے کردیتے جس سے نجات پانا بھی اسی کے ذمے تھا۔
پھر اس دنیا میں جنم ہوا۔ ماں کے وجود سے تعلق چھوٹنے کے بعد کے لمحات ایسے ہی تھے جیسے کوئی گہرے پانیوں میں ڈوبنے والا چاروں طرف ہاتھ پیر مارتا ہوا اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرتا ہے۔ پانی کی سطح سے اٹھتا سر، ڈبکیاں کھاتا جسم اور امید! دنیا میں پہلے سانس کی تمنا….. رہ رہ کے امید ٹوٹتی تھی اور آس بندھتی تھی۔ ایسے میں کسی مہربان نے تھپکی دے کر راہ آسان کر دی تھی اور پھر سانس کا یہ رشتہ بندھ گیا جس میں زندگی بھی تھی اور موت بھی! دونوں ساتھ ساتھ چلتی تھیں، ایک دوسرے کو پچھاڑنے اور ہرانے کے لئے ہمہ وقت تیار! جس کی آنکھ ذرا سی چوکی، ہار اس کا مقدر!
عمر کے ابتدائی برسوں میں سانس کے ساتھی ہونے کا احساس ہی نہیں ہوا۔ بس یہی علم تھا کہ بھاگتے دوڑتے ایک فرحت بخش سا احساس ہے، ہوا کا ایک جھونکا جو جسم کے اندر کچھ منٹوں میں فسوں پھونک دیتا ہے۔
اوائل شباب میں خبر ہوئی کہ اہل دل و ہنر سانس کی سادگی کو جذبات کی اوٹ میں کچھ اور معنی بھی پہنایا کرتے ہیں۔ سانس کی آمدورفت محبوب وعشاق کے درمیان اشاروں کنایوں کا وسیلہ بھی بن سکتی ہے/ رات بھر دیدہ نمناک میں لہراتے رہ ، سانس کی طرح آپ آتے رہے جاتے رہے!
دیدہ نمناک والی واردات تو ہم پہ گزر نہ سکی لیکن کو چہ مسیحائی میں دن کو رات کرتے ہوئے ایسا وقت بھی ہم پہ آن پڑا جب کوئی جاں بہ لب کچھ اور سانسوں کی بھیک میں ہماری طرف ملتجی نظروں سے تکتا تھا۔ بیماری سے قطرہ قطرہ پگھلتا جسم، آس اور نراس میں ڈوبا چہرہ اور ڈوبتی نظروں کی الوداعی مسکراہٹ سہنا سہل نہیں تھا۔ سوہم نے سب جانتے ہوئے بھی اپنی کچھ سانسیں اسے دان کی تھیں لیکن مانگے کی سانس کب تک اس کا ساتھ دیتی۔
ابھی تک سانس کے روٹھنے اور من جانے کو کسی اور پہ گزرتے ہی دیکھا تھا سو نہیں جانتے تھے کہ جب سانس جسم کا ساتھ چھوڑنے لگے تو رگ و ریشے کی ٹوٹ پھوٹ ایسے ہی ہے جیسے کوئی کانٹوں پہ ننگے پاؤں زندگی کی تلاش میں چل رہا ہو یا تپتے صحرا میں گرم ریت پہ پانی کی کچھ بوندوں کے لئے تڑپ رہا ہو یا پھر سینے پہ بھاری بوجھ دھرے ایک تنگ و تاریک سرنگ میں دور روشنی کی ایک جھلک دیکھتے ہوئے ماؤف ذہن کے ساتھ دیوانہ وار رینگتا ہو۔
ہم اس تجربے سے اس وقت گزرے جب آپریشن تھیٹر کی میز پہ لیٹے ہوئے ہماری سانسیں ہم سے نہ جانے کیوں روٹھ بیٹھیں۔ ہماری طلب میں تڑپ تو بہت تھی مگر زندگی تھی کہ منہ موڑے موت کی دہلیز پہ کھڑی تھی۔ ہمارا جسم اپنی سی کوشش کرتا تھا لیکن سانس کہیں نہیں تھا۔ سانس کو راضی کرنے کے لئے ہم بے چینی سے منہ کھولتے تھے اور سانس کے ساتھ چھوڑ دینے سے غشی کا عالم طاری ہوتا تھا۔ اپنی اڑان، اوقات اور بساط ایک سانس تک ہی تو محدود تھی۔
جب جسم سانس کو منا نہ سکا تب وینٹی لیٹر نے کچھ سانسیں ادھار دیں کہ سہارا دینے والوں کے پاس یہ آسرا موجود تھا۔ وینٹی لیٹر کی چوبیس گھنٹے تک ہمراہی سے سانس، جسم اور زندگی کا بال سے باریک رشتہ سمجھ میں آ گیا۔
اپنی سانسوں کے ساتھ کھیلا جانے والا کھیل تو ہم جھیل گئے لیکن اگلا مرحلہ اس سے کٹھن نکلا جب ایک ایسی ہستی کی رخصت ہوتی سانس دیکھی جس نے ہمیں اپنے بطن میں اپنی سانس کے سہارے پروان چڑھایا تھا۔
آخری وقت میں اماں کی سانس ایسے ہی تھی جیسے ٹھہری ہوئی پرسکون ندی کے پانی میں نیا دھیرے دھیرے چل رہی ہو اور بالکل اچانک گرداب میں میں پھنس جائے۔ ایسے میں ماہی گیر کبھی پوری قوت سے چپو چلانے کی کوشش کرے، کبھی بادبان سنبھالے اور کبھی کشتی کو غرق ہونے سے بچانے کی کوشش میں ہلکان ہوتا جائے۔ اماں کے ساتھ بالکل ایسا ہی ہوا۔ تکیے پہ سر رکھے، بند آنکھوں کے ساتھ اماں کی دھیمی نرم گرم سانس پرزور آندھی بن گئی جس کا شور اور تیزی ہم سب کو ڈراتی تھی اور ساتھ میں رلاتی بھی تھی۔ رخصت ہوتی ہوئی سانس کا کھیل، تیز اور تیز، موت سے زندگی کی جنگ، جسم کی مزاحمت اور پھر ہتھیار پھینک دینے کے بعد کی تھکان۔ سانس ایسے جیسے پتوں کی سرسراہٹ، دھیرے دھیرے، آہستہ، اور آہستہ ، بیچ کا دقفہ طویل اور طویل، موت کی آہٹ قریب اور قریب …..اور پھر منہ سے نکلتی جھاگ کے ساتھ آخری سانس….. ساکت جسم اور خاموش لب، آنکھوں کے گوشوں میں کچھ نمی، شاید مشقت ہی اس قدر تھی۔
سانس کی موت کے ساتھ آنکھ مچولی تو ہر زندگی کا حصہ ہوتا ہی ہے لیکن سانس کا ایک اور تماشا بھی تھا جو دیکھنا ہمارا مقدر بنا۔
کرہ ارض پہ اکیسویں صدی کے انسان کی سانسوں کا امتحان! کون جانتا تھا ایک برس پہلے تک قدرت کا وہ تحفہ جو زندگی کی ہر دوڑ میں ہمیں شریک رکھتا ہے، اس کے لئے ہر کسی کو تڑپنا ہو گا۔ منہ پہ ایک نقاب چڑھا کے، رکی رکی، تھکی تھکی، مشقت سے کمائی ہوئی سانس۔ جب ہر لمحہ یہ جی چاہے کہ کاش یہ ماسک منہ سے ہٹ جائے اور ہم ویسے ہی گہرا سانس لے سکیں، کسی آزاد پرندے کی طرح، منہ کھول کے، جی بھر کے، آزادی سے، جتنی دل چاہے، جہاں دل چاہے۔
نہ پوچھیے کہ اس برس میں سانس کو کس کس روپ میں دیکھا۔ بجھی بجھی مسکراہٹ میں چھپی سانس، آہوں میں اوجھل سانس، عم سے بوجھل سانس، تنہائی اور یاسیت کی ماری سانس، خوف میں بجھی سانس، انہونی سے لرزتی سانس، موت کو سامنے دیکھ کے اکھڑتی ہوئی سانس، ایک اور سانس کی تمنا لئے دم توڑتی سانس! آنکھوں کی بجھتی ہوئی جوت کے ساتھ سانس جو ہوا میں بدل جائے۔
دنیا قفس میں بدل چکی ہے کہ سانس زہر آلود ہو چکے۔ علم ہی نہیں کہ کس کی سانس میں موت پوشیدہ ہے اور کس طرف سے حملہ آور ہونے کو پر تول رہی ہے۔ ابھی تک زندگی اور سانس کا بندھن دیکھا تھا اور اب چاروں طرف موت اور سانس کا کھیل جاری ہے جہاں ہر قدم پہ موت یہ کھیل جیتتے ہوئے رقصاں ہے۔
دانت نکوسے، بال کھولے، اپنی فتح کا جشن مناتی، قہقہے لگاتی، زندگی کو پچھاڑتی، سانسوں کو سلب کرتی، انسان کی بے کسی پہ زہر خند موت!
ہمیں علم نہیں کہ زندگی اور موت کی اس جنگ میں سانس کی ہار ہمیں کب تک سہنی ہوگی؟ اور ہم اس بات سے بھی بے خبر ہیں کہ بنا ماسک بے فکری سے گہرے سانس لینے کی آزادی ہمارے در پہ کب دستک دے گی؟
سانس لیتے رہیے، فاصلے سے، ماسک پہن کے کہ اسی میں زندگی ہے!
آتی جاتی سانس کا عالم نہ پوچھ
جیسے دہری سانس کا خنجر چلے

Post a Comment

0 Comments