Main Menu Bar

میری کہانی میری زبانی میں کرونا سے کیسے لڑا 👇

میری کہانی میری زبانی
میں کرونا سے کیسے لڑا 👇
۵ جون بروز جمعہ مبارک صبح بستر سے اٹھا تو کیفیت نارمل نہیں تھی ۔ کچھ چھینکیں ائیں حد سے زیادہ نقاہت محسوس ہوئی۔ اتنی کہ قدم اٹھانا بھی مشکل لگا۔ سانس بہت پھول رہا تھا ۔ جسم میں شدید درد اور آنکھوں کے آگے اندھیرا۔ خیر بہت ہمت کر کے اپنی قوت ارادی کی بنیاد پر چلتا پھرتا رہا۔ مگر تمام دن بہت مشکل سے گزرا۔
ذہن میں ایک کھٹکا سا تو تھا مگر یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ یہ وبا کی طرف اشارہ ہے۔جمعہ کی رات بھی بے خوابی کی نذر ہو گئی۔ 7 جون کو حسب معمول دافع درد ادویات لے کر اپنے آفس چلا گیا۔ ایک عجیب بات ہوئی ہینڈ سینیٹائزر استعمال کرتے ہوئے میں اسکی خوشبو کو یکسر محسوس نہیں کر سکا جو کہ خاصی تشویشناک صورتحال تھی ۔ چائے پی تو تو بے ذائقہ لگی۔ بہت عجیب صورت حال تھی۔ اسی اثناء میں بہت محترم دوست آصف رضا کا فون ایا۔ معمول کے حال احوال کے بعد جب ان سے اپنی کیفیت کا زکر کیا تو انہوں نے تو جیسے خطرے کا الارم بجادیا ۔ یہ میرے لیے واضح اشارہ تھا کہ میں کرونا کی لپیٹ میں آ چکا ہوں۔ اپنے ہیڈ آفس اور دفتری ساتھیوں کو اطلاع کرنے کے بعد گھر کے لیے روانہ ہوا ۔ راستے سے میں نے اپنی فہم کے حساب سے کچھ ضروری چیزیں لیں جن میں  پیناڈول۔ وٹامن سی۔ سنا مکی۔ لیموں اور کچھ پھل شامل تھے۔
گھر پہنچ کر بیگم بچوں کو مختصرا" صورتحال سے آگاہ کیا اور اپنا کچھ ضروری سامان ساتھ لے کر اوپر کے ایک کمرےمیں خود کو قرنطینہ کر لیا۔ 
زندگی میں ایک عجیب و غریب امتحان شروع ہو چکا تھا۔ علامات آہستہ آہستہ واضح ہونا شروع ہو رہی تھیں۔ دل میں اندیشے جنم لے رہے تھے۔ تیز بخار اور آنکھوں میں جلن اور جسم میں درد نے پریشان کرنا شروع کر دیا تھا۔ اس دوران میں نے اپنے آپ سے ایک مکالمہ کیا اور یہ طے کیا کہ خوف, تنہائی اور گھبراہٹ ایک طرف رکھ کر اس ان دیکھے مہمان سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔ اس فیصلے نے مجھے ایک زہنی اطمینان بخشا۔ 
اسی روز شام کو میں بہاول وکٹوریہ ہسپتال گیا جہاں فلو کاؤنٹر پر ڈاکٹر طیب نے میری کیفیت پوچھنے کے بعد ضروری investigations کیں اور chest x-ray بھی کروایا۔ پھر انہوں نے مجھے azithromycin اور panadol تجویز کی اور گھر پر ہی Isolation کا کہا۔ انہوں نے کہا کہ اگر آپ کی تکلیف خدانخواستہ بڑھ جائے تو بلا جھجھک سول ہسپتال چلے جائیے گا۔ 
ہسپتال سے واپس آکر میں نے اپنے کچھ خیر خواہوں سے رہنمائی کے لیے رابطہ کیا جس سے ان احباب کی طرف سے مجھے بہت سی مفید معلومات اور حوصلہ ملا۔ سب نے جینے کی امنگ اور moral high رکھنے کا کہا۔ میں نے ڈاکٹر جعفر صاحب کا تجویز کردہ نسخہ  فوراً شروع کر دیا  جس سے بخار کی شدت میں کمی آئی۔
اچھی بات یہ تھی کہ مجھے کھانسی نہیں ہوئی۔ مگر سانس بری طرح پھول رہا تھا۔ جس کے لیے میں نے کٹا ہوا لیموں اور سنا مکی کے چند پتے  ڈال کردن میں تین سے چار مرتبہ بھاپ لینے کا سلسلہ جاری رکھا۔ صبح اور شام ادرک اور دارچینی کا قہوہ بھی معمولات میں پہلے سے ہی شامل تھا جسے جاری رکھا۔ پھلوں میں آم آلو بخارا خوبانی اور آڑو کا استعمال وقفے وقفے سے چلتا رہا۔ کھانا بھوک نہ لگنے کے باوجود کھایا اگرچہ میرے لیے ہر چیز بے ذائقہ ہو چکی تھی۔ بادام بھی درمیان درمیان میں چباتا رہا۔
مٹن کی یخنی بھی دو وقت لینے سے میری توانائی خاصی بحال رہی۔اور ساتھ میں اپنے اور تمام بیماروں کی شفایابی کے لیے دعا بھی بہت کی۔
میرا کھانا چائے ناشتہ میرے مخصوص برتنوں میں دوسرے کمرے میں رکھ کر مجھے  اطلاع دے دی جاتی اور میں وہاں سے اٹھا لیتا۔ اپنے پانی کا کین میں نے کمرے میں ہی رکھا ہوا تھا جس میں سے میں پانی پیتا رہا۔ پانی کا ذائقہ ایسا لگتا جیسے کڑوی دوا۔ مگر پیاس بے انتہا تھی۔ اور ٹھنڈے پانی سے بھی احتیاط ضروری تھی۔ مگر کبھی کبھی میں نے اندر لگی آگ سے مجبور ہوکر معمولی ٹھنڈا پانی بھی پیا۔
اس دوران میں نے اپنا رابطہ فون اور سوشل میڈیا پر کسی سے منقطع نہیں کیا اور تمام دوستوں سے محبت اور حوصلہ افزائی ملتی رہی جو میرے لیے لائف لائن تھی۔ میرے کچھ اپنوں نے مسلسل دعائیں کیں۔ پل پل کی خبر رکھی ہمت بندھائی زندگی کی خواہش اور حوصلہ بخشا۔
عجیب کرب تنہائی تھا ۔ ہر طرف موت کی خبریں اس پر نیند بالکل ختم ہو گئی۔ کبھی کبھی تو بیماری اور گرمی سے دل بھر آتا۔ رونے کو دل کرتا۔  میں دیر دیر تک ایر کولر کے آگے بیٹھا رہتا۔ جب چہرہ تپنے لگتا تو چہرے کو گیلا کر لیتا۔ اس دوران فیملی سے اور دوستوں سے فون پر مسلسل رابطہ رہا جن کو میری صحت بارے تشویش تھی۔ ان فون کالز کی وجہ سے بھی ذہن بٹ جاتا اور باتیں کرنے سے خاصی تشفی ہوتی۔
قرنطینہ کے تیسرے روز مجھے ایک ڈاکٹر صاحب کی ویڈیو سے یہ پتہ چلا کہ انڈے کے برابر پیاز اگر ہاتھ میں لے کر سیب کی طرح کاٹ کر کھائی جائے تو کرونا نہیں رہتا۔ میں نے اسی وقت ہمت کر کے ایسا کیا۔ یہ ایک مشکل کام تھا آنکھ ناک کان سے لیکر معدے تک ناقابل برداشت جلن ہوئی مگر میں نے برداشت کر کے پیاز پوری کھائی۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس کے بعد  بخار کی شدت میں واقعی کمی ہوئی 102 ،103 سے بخار 99 اور 100 درجے تک آنے لگا۔
مگر میں نے ڈاکٹری نسخہ بھی ساتھ جاری رکھا۔ جیسے تیسے دو ہفتے گزارے
12 دن بعد میں نے covid antibodies test کروایا۔ ٹسٹ ڈاکٹر صاحبان کو دکھانے پر یہ پتہ چلا کہ میرے مدافعتی نظام نے بہت اچھا کام کیا ہے اور میں کرونا کو تقریباً شکست دینے میں کامیاب ہو چکا ہوں۔ یہ میرے لیے خوشی کی خبر ہے۔
مگر ابھی بیماری کے اثرات باقی ہیں۔ جسم میں  پیروں کے تلوؤں میں اور پنڈلیوں میں درد باقی ہے۔ ابھی مزید ایک ہفتہ مجھے تمام احتیاط اور پرہیز کے ساتھ گھر میں ہی گزارنا ہے تاکہ میں کسی مزید پیچیدگی سے محفوظ رہوں  اور باہر کے لوگ میری وجہ سے infected نہ ہو جائیں۔
دوستوں گھبرائیے نہیں ۔ کرونا کا پھیلاؤ اب انہونی بات نہیں رہی ۔ اللہ ہم سب کو اس سے محفوظ رکھے لیکن اگر کرونا covid 19 ہو بھی جائے تو مندرجہ ذیل باتوں کا خیال کیجیے
1- دل نہیں چھوڑنا۔ زندہ رہنے کا عزم رکھنا ہے۔
2-معالج کی ہدایات کو اہمیت دیجیے اور ادویات پابندی سے استعمال کیجیے
3. اپنی خوراک کا بہت خیال کیجیے ۔ ہائی پروٹین ڈائٹ استعمال کیجیے۔
4. دہی۔ انڈہ۔ دودھ بادام اخروٹ۔ اور پھلوں کا باقاعدہ استعمال ضروری ہے۔
5-کٹا ہوا لیموں اور کلونجی ڈال کر  سٹیم تین وقت ضرور لیجیے یہ بہت اہم ہے اور پانی زیادہ سے زیادہ پیجیے۔ liquid intake
6.نیند چاہے نیند کی گولی کھا کر پوری کرنی پڑے وہ ضرور کیجیے
7. شام کی دھوپ اور ہلکی پھلکی واک آپ کے خون کو گاڑھا نہیں ہونے دے گی۔
میں بیماری کے دوران اپنی خبر گیری کرنے والے ہر شخص کا نام شاید نہ لے سکوں کیونکہ سب کی محبت اور خلوص  بے لوث اور بے مثال ہے جو ابھی بھی جاری ہے۔
میری اس تحریر کا مقصد قطعاً خود نمائی یا ہمدردیاں حاصل کرنا نہیں صرف اپنے تجربے سے آگاہ کرنا ہے۔
میں نے مندرجہ بالا تحریر پوری نیک نیتی سے اس طرح لکھنے کی کوشش کی ہے کہ اس وبا کا شکار ہونے والے یا جن کے کسی قریبی عزیز کو یہ مسئلہ ہوا ہے ان کو اس سے رہنمائی ملے۔ دنیا میں کہیں بھی ہیں میں اپنے ان تمام احباب کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں جنہوں نے میری خبر گیری کی اور دعاؤں میں یاد رکھا اور رکھ رہے ہیں۔
والسلام۔ خیر اندیش 
احتشام حسن
Ehtesham Hassan
⁦♥️⁩⁦♥️⁩⁦♥️⁩⁦♥️⁩⁦🏵️⁩⁦♥️⁩⁦♥️⁩⁦♥️⁩⁦♥️














Post a Comment

0 Comments